’کیا تماشا ہے! ‘امریکی انتخابات پر عالمی رہنماؤں کا ردعمل

امریکہ میں ووٹنگ کے دو دن بعد بھی صورتِ حال واضح نہ ہونے کے باعث کئی حریف ملکوں کو طنز کا موقع مل گیا ہے۔

ایران کے رہبرِ اعلیٰ خامنہ ای   نے بھی امریکی صدارتی انتخابات  کے نتائج میں تاخیر پر بیان دیا (فائل تصویر: اے ایف پی)

امریکہ میں صدارتی انتخابات کے نتائج مرتب کرنے میں غیر معمولی تاخیر اور موجودہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے دھاندلی کے الزامات کو جہاں دنیا بھر میں دلچسپی سے دیکھا جا رہا ہے وہیں کئی عالمی رہنماؤں نے اس موقعے کا فائدہ اٹھا کر امریکہ پر طنز بھی کیا ہے۔

دنیا بھر کے اخباروں میں اداریے چھپ رہے ہیں، جن میں سوال اٹھایا جا رہا ہے کہ کیا یہی دنیا کا سب سے طاقتور ملک ہے اور یہی اس کی جمہوریت ہے کہ وہ اپنے رہنما کا انتخاب بھی ڈھنگ سے نہیں کر سکتا؟

امریکہ کے حریف ملک وینزویلا کے صدر نکولاس مادورو نے امریکہ کو مشورہ دیا کہ وہ دنیا کو جمہوریت کے بارے میں لیکچر دینے کی بجائے وینزویلا سے سبق سیکھے کہ الیکشن کیسے منعقد کیے جاتے ہیں، کیوں کہ وینزویلا ووٹ گننے والی مشینیں اور بائیومیٹرک ٹیکنالوجی استعمال کرکے اسی دن نتائج کا اعلان کر دیتا ہے۔

انہوں نے مزید کہا: ’امریکی وزارتِ خارجہ کہتی رہتی ہے، ہم فلاں ملک میں انتخابات کے نتائج تسلیم نہیں کرتے، فلاں ملک میں ہمیں یہ پسند نہیں، فلاں ملک میں وہ پسند نہیں۔‘

انہوں نے مشورہ دیا کہ اگر امریکہ اپنے مسائل پر توجہ دے تو اس کے لیے بہتر ہو گا۔

ایک اور امریکی حریف ملک ایران کے رہبرِ اعلیٰ خامنہ ای نے اس بارے میں ٹویٹ کی: ’کیا تماشا ہے! ایک شخص کہتا ہے کہ یہ امریکی تاریخ کے سب سے دھاندلی زدہ انتخابات ہیں۔ وہ کون ہے؟ وہ صدر جو اس وقت اقتدار میں ہے اور جو خود انتخابات منعقد کروا رہا ہے۔‘

خامنہ ای نے یہاں یہ وضاحت نہیں کی کہ امریکہ میں انتخابات صدر نہیں کرواتا بلکہ ریاستیں انفرادی طور پر اس کا انتظام کرتی ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

خامنہ ای اس سے پہلے کہہ چکے ہیں کہ امریکی انتخابات ’ہمارا مسئلہ نہیں ہیں، مطلب یہ کہ ان کا ہماری پالیسی پر کوئی اثر نہیں ہو گا۔‘

صدر ٹرمپ نے جمعرات کی شام وائٹ ہاؤس میں تقریر کرتے ہوئے ایک بار پھر الزام لگایا تھا کہ انتخابات میں بڑے پیمانے پر دھاندلی ہو رہی ہے۔ ان کے مشیروں نے متعدد ریاستوں میں قانونی جنگ لڑنے کا اعلان بھی کیا ہے۔

سکاٹ لینڈ کی فرسٹ منسٹر نکولا سٹرجن نے صدر ٹرمپ کی جانب سے الیکشن کے نتائج تسلیم نہ کرنے کو برطانیہ کی جانب سے سکاٹ لینڈ کو آزادی کے لیے ریفرینڈم منعقد نہ کروانے کے مترادف قرار دیا۔

انہوں نے کہا: ’بحرِ اوقیانوس کی دوسری جانب ہم دیکھ رہے ہیں کہ وہ سیاست دان جو جمہوریت پر برستے ہیں، وہ پنپتے نہیں۔ ہمیں اس بکواس کو عزت دینے کی ضرورت نہیں۔‘

روس نے بھی امریکی انتخابی مسائل پر طنز کیا ہے۔ روسی وزارتِ خارجہ کے ترجمان نے ایک بیان میں کہا: ’یہ ایک شو ہے۔‘ انہوں نے کہا کہ امریکی انتخابی نظام میں واضح خامیاں موجود ہیں اور ان کا نظام دقیانوسی ہے۔

دوسری جانب چین کے سرکاری میڈیا نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ میں انتخابی عمل کسی ترقی پذیر ملک کی مانند لگ رہا ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی امریکہ