’عوام میٹرو ٹرین کی بجائے چنگ چی کے مستحق ہیں‘

لاہور میٹرو ٹرین کے حوالے سے کئی توقعات ذہن میں لیے جب میں علی ٹاؤن میٹرو سٹیشن پہنچا تو جو منظر میں نے دیکھا اس پر میری آنکھوں کو یقین نہیں آیا۔

اورنج لائن میٹرو سٹیشن کے چند مناظر (تصاویر: عبدالقیوم شاہد)

لاہور ایک شادی میں شرکت کے لیے آیا ہوا تھا تو سوچا چلو حال ہی میں چلنے والی اورنج لائن میٹرو ٹرین کی سیر بھی کر لی جائے۔

میٹرو ٹرین سسٹم کسی بھی شہر کے لیے انٹرنیشنل سٹیٹس کی علامت سمجھا جاتا ہے۔

نئی دہلی اور سٹاک ہوم کی میٹرو ٹرینوں میں آوارہ گردی کر چکا ہوں، اس لیے لاہور میٹرو ٹرین کے حوالے سے کئی توقعات ذہن میں لیے علی ٹاؤن میٹرو سٹیشن پہنچا تو جو منظر میں نے دیکھا اس پر میری آنکھوں کو یقین نہیں آیا۔

سٹیشن پر گرد آلود فرش اور جگہ جگہ گندگی کے ڈھیر نے میرا استقبال کیا۔

ٹکٹ کاؤنٹرز ہوں، پلیٹ فارمزہوں  یا سیڑھیاں، ہر جگہ شابنگ بیگز، خالی بوتلیں، ریپرز، ماسک حتیٰ کہ بچوں کے استعمال شدہ ڈائپرز بھی اس جدید ترین میٹرو سسٹم کے سٹیشنز پر جابجا میرا منہ چڑا رہے تھے۔

بند روڈ سٹیشن کے سٹیشن ماسٹر محمد سفیر سے جب صفائی کے نظام کے حوالے سے جاننا چاہا تو انہوں نے بتایا کہ تمام سٹیشنز پر صفائی کی ذمہ داری لاہور ویسٹ مینیجمنٹ کمپنی (ایل ڈبلیو ایم سی) کی ہے تاہم کمپنی کے عملے نے تاحال اپنی ذمہ داریاں نہیں سنبھالیں اور انہیں امید ہے کہ چند روز میں یہ مسٔلہ حل کر لیا جائے گا۔

اورنج لائن کے سب سے زیادہ خوبصورت سمجھے جانے والے انار کلی سٹیشن پر اترنے کے بعد جو منظر دیکھا وہ بھی ناقابل بیان ہے۔ پلیٹ فارم پر ڈھیر سارے ٹشو پیپرز اور قے کسی کا بھی دل خراب کرنے کا موجب بن رہی تھی۔

سٹیشن پر موجود فواد نامی مسافر کا کہنا تھا کہ ’یہ مناظر دیکھ کر ناگواری اپنی انتہا کو چھو رہی ہے، اگر صفائی والے نہیں آ رہے تو عوام بھی گند کو پھیلانے میں آگے آگے ہیں۔ عوام اس جدید سفری نظام کی بجائے چنگ چی کے ہی مستحق ہیں۔‘

انار کلی سٹیشن پر ہی سیڑھیوں اور دیواروں پر لگی کئی ٹائلز ٹوٹ پھوٹ کا شکار نظر آئیں۔

اگلی منزل اس سسٹم کا آخری سٹیشن ڈیرہ گوجراں تھا جہاں قدرے صفائی تھی اور ایل ڈبلیو ایم سی کا عملہ موجود تھا۔ کمپنی کے ایک اہلکار ارسلان نے بتایا کہ عملے کی کمی کے باعث ایل ڈبلیو ایم سی تمام سٹیشنز کی صفائی صبح ایک بار ہی کر پاتی ہے لیکن عوام وہاں اتنا گند پھینک جاتے ہیں کہ وہاں دن میں کوڑے کے ڈھیر لگ جاتے ہیں۔      

 لاہور پاکستان کا واحد شہر ہے جہاں اربوں روپوں کی لاگت سے تعمیر ہونے والی یہ جدید سفری سہولت عوام کو فراہم کی گئی ہے۔

پاکستان جنوبی ایشیا کا دوسرا ملک ہے جہاں کسی شہر میں میٹرو ٹرین سسٹم قائم ہے جبکہ بھارت کے 13 شہر اس ماس ٹرانزٹ سسٹم کا حصہ ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

تقریباً 27 کلومیٹر طویل اورنج لائن پروجیکٹ دو زیر زمین سمیت 26 سٹیشنوں پر مشتمل ہے جس کے ذریعے روزانہ ڈھائی لاکھ افراد صبح 7:30 بجے سے رات 08:30 بجے تک ڈیرہ گوجراں سے علی ٹاؤن تک کا سفر 45 منٹ میں طے کر سکتے ہیں۔

25 اکتوبر کو افتتاح کے بعد اب کچھ لوگ اس سروس سے استفادہ کر رہے ہیں تو کچھ اس سے محظوظ ہو رہے ہیں جیسا کہ ٹرین کی ریلنگ سے جھولتے بچوں کی ویڈیوز سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی ہیں جن پر بھارتی میڈیا نے بھی پاکستانی عوام کا مذاق اڑایا ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی تصویر کہانی