پشاور کی تاریخی کارخانو مارکیٹ کی رونقیں ماند کیوں پڑ گئیں؟

پشاور کی یہ مارکیٹ کسی زمانے میں سامان کے معیار اور انفرادیت کے لیے مشہور تھی جس کی وجہ سے نہ صرف خیبر پختونخوا بلکہ پنجاب سے بھی خریداروں کا تانتا بندھا رہتا تھا۔

بعض خریدار مایوس ہیں کہ کسی زمانے میں یہاں چینی، جاپانی اور مغربی ممالک کا سامان ملتا تھا لیکن اب یہاں مقامی اور نقلی سامان کی بھرمار ہے(تصویرانڈپینڈنٹ اردو)

وزیر اعظم عمران خان کے کابل دورے کے بعد دونوں ممالک کے باہمی تعلقات میں استحکام کے وعدوں اور اس سے پہلے افغان چیف ایگزیکٹیو ڈاکٹرعبداللہ عبداللہ کے اسلام آباد دورے کی کامیابی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ چند دن قبل روز طورخم گیٹ پر پاکستان کی اپنی جانب مرمت کے کام پر افغان فوجیوں کے اعتراض کے بعد سکیورٹی خدشات کی وجہ سے پاکستان کو ایک مرتبہ پھر بارڈر ہر قسم کی آمد ورفت کے لیے بند کرنا پڑا۔

وزیر اعظم پاکستان اور چیف ایگزیکٹیو افغانستان کی ملاقاتوں کے بعد قومی اسمبلی کے سپیکر اسد قیصر نے ایک بیان میں کہا تھا کہ 23 رکنی افغان وفد جس میں افغان سیاست دان، سرمایہ کار اور تجارت پیشہ افراد شامل تھے، پاکستان کا دورہ کر چکے ہیں اور دونوں ممالک باہمی تعلقات اور تجارت کو فروغ دینے کے معاملے پر مطمئن نظر آتے ہیں۔

اس صورت حال کے تناظر میں حکومت پاکستان نے یہ فیصلہ بھی کیا کہ اب طورخم بارڈر پیدل چلنے والوں کے لیے چار دن کی جگہ سات دن کھلا رہے گا۔ تاہم طورخم گیٹ کے دونوں جانب اقدامات اٹھانے کے دعوؤں کے باوجود تاجر اپنے کاروبار میں کوئی مثبت فرق محسوس نہ کرنے کی شکایت کرتے نظر آرہے ہیں۔

حقائق جاننے کے لیے انڈپینڈنٹ اردو نے پشاور میں طورخم جانے والی مرکزی شاہراہ پر واقع حیات آباد مارکیٹ کے، جس کو مقامی لوگ کارخانو مارکیٹ کے نام سے یاد کرتے ہیں، دکانداروں سے رابطہ کیا تو انہوں نے کہا کہ طورخم گیٹ کی بندش سے جہاں ایک جانب تجارت کو سخت نقصان پہنچا ہے، وہیں سامان تاخیر سے پہنچنے کی وجہ سے مارکیٹ میں قلت بھی پیدا ہو گئی ہے، نتیجتاً سامان کی قیمتیں بڑھ گئی ہیں۔

دوسری جانب، بعض خریداروں نے مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کسی زمانے میں یہاں چینی، جاپانی اور مغربی ممالک کا سامان ملتا تھا لیکن اب لوکل اور نقلی سامان کی بھرمار ہے۔ تاہم مارکیٹ کے ایک دکاندار زوہیب نے بتایا کہ یہاں میں اب بھی اوریجنل سامان دستیاب ہے لیکن مختلف عوامل کی وجہ سے اس کی تعداد کم ہو گئی ہے۔

حیات آباد مارکیٹ کے دکان داروں کا کہنا تھا کہ جب سے حکومت نے کراچی بندرگاہ پر مختلف ممالک سے پہنچنے والے سامان پر ٹیکس لگایا ہے کئی تاجروں کے لیے کارخانو مارکیٹ میں سرمایہ کاری کی کشش ختم ہو کر رہ گئی ہے۔

 پاک افغان تجارت سے واقفیت رکھنے والوں کا کہنا ہے کہ ان تاجروں اور دکانداروں کا اصل مسئلہ کراچی کی بندرگاہ پر ٹیکس وصولی سے زیادہ یہ ہے کہ افغانستان جانے والے کنٹینرز کا سامان کارخانو مارکیٹ میں بلیک میں فروخت ہوتا تھا وہ حالات اب نہیں رہے ہیں۔

حیات آباد مارکیٹ کی زبوں حالی کی وجہ کیا ہے؟

حیات آباد مارکیٹ کسی زمانے میں سامان کے معیار اور انفرادیت کے لیے مشہور تھی جس کی وجہ سے نہ صرف خیبر پختونخوا سے بلکہ پنجاب سے بھی خریداروں کا تانتا بندھا رہتا تھا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

 جوتوں، شیمپو، صابن، برتنوں اور الیکٹرانکس سے لے کر پنیر اور سبز چائے تک لے جانے کے لیے خریدار دور دراز سے اس مارکیٹ آیا کرتے تھے۔ دن بھر کی شاپنگ سے جب خریدار تھک جاتے تو کھانے کے لیے افغانی کھانوں کی ایک لمبی فہرست ان کے سامنے ہوتی تھی۔ 

حیات آباد مارکیٹ کی اس شہرت کی وجہ یہ تھی کہ یہاں دنیا کے مختلف ممالک کا دیرپا سامان نہایت مناسب داموں ملتا تھا۔ چونکہ اس زمانے میں پاکستان اور افغانستان کی سرحدوں پر سخت پہرہ نہیں تھا لہٰذا بارڈر پر دونوں جانب غیر قانونی تجارت عروج پر تھی۔

مختلف رپورٹس کے مطابق مختلف ممالک سے بغیر ٹیکس کا جو سامان افغانستان لے جانا مقصود ہوتا تھا، درپردہ ملوث لوگ بیچ راستے میں ہی سودا کرکے اس مال کو ڈیلرز کو بیچ دیتے تھے، جو بعد میں کارخانو مارکیٹ میں بلیک میں فروخت ہوتا تھا۔ جب نیٹو فورسز افغانستان آئیں اور ان کے لیے امریکہ اور یورپی ممالک سے مختلف سامان ضرورت سے لدے ہوئے کنٹینرز  آئے تو ان کا بھی یہی حشر ہوا۔

فوجیوں کے جوتے، شیونگ کٹس، قیمتی پرفیومز، شرٹس، دوربینیں، ہتھوڑے اور چاقو وغیرہ، بلٹ پروف جیکٹس کے خول،  فوجیوں کے لیے مورچوں میں غذائیت سے بھرپور خوراک کے تھیلے اور بسکٹ بھی حیات آباد مارکیٹ میں بکتے تھے جس کو گاہک بہت شوق سے دھڑا دھڑ خریدتے تھے۔

احمد اللہ نامی ایک دکان دار نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ کارخانو مارکیٹ کی ستارہ مارکیٹ میں بلٹ پروف جیکٹس صرف چند ہزار میں بکتی تھیں۔ انہوں نے کہا کہ فوجیوں کے لیے بنے سامان کی نقل اب مقامی سطح پر تیار کرکے بیچی جاتی ہے۔

احمد اللہ نے مزید بتایا کہ ماضی میں نیٹو کنٹینرز کا سامان چوری ہونے کی وجہ سے اب یہ مال قزاقستان اور ازبکستان کے راستے افغانستان کے شمالی علاقوں میں لایا جاتا ہے۔ ’ڈیلرز نیٹو فورسز کا یہ سامان اب افغانستان سے پاکستان بھیجتے ہیں جس کے بارے میں عام تاثر یہ ہے کہ افغان نیشنل آرمی بھی اس میں ملوث ہے۔ لیکن اس سامان کی تعداد اتنی زیادہ نہیں، آج کل کارخانو مارکیٹ میں زیادہ تر سامان چین اور پاکستان کا ہے۔‘

احمد اللہ نے مزید بتایا کہ چوری شدہ سامان کے علاوہ بھی افغانستان سے قانونی طریقے سے کئی قسم کا سامان پاکستان آتا ہے جس میں قالین، خشک میوہ جات،  سبزیاں وغیرہ شامل ہیں۔ تاہم یہ سامان سرحد کی بندش کی وجہ سے ہفتوں اور مہینوں میں پہنچتا ہے۔

پاکستان اور افغان اعلیٰ حکام کے رابطوں کے بعد طورخم بارڈر دوبارہ آمدو رفت کے لیے کھول دیا گئی ہے۔ دونوں ہمسایہ ممالک کے مابین مخصوص تجارتی معاہدوں، یادداشتوں اور کسٹم نظام میں موجود مسائل کے حل اور مشترکہ بارڈر پر قانون کے مطابق آزاد نقل و حرکت میں آسانی کے ذریعے تجارت کو فروغ مل سکتا ہے لیکن مشہور کارخانو مارکیٹ کی رونقیں افغانستان سے فوجیوں کی انخلا اور ان کے لیے رسد کے راستے بند کیے جانے کی وجہ سے شاید ہی بحال ہو سکیں۔

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان