اب تک کتنے ایرانی سائنسدانوں پر حملے ہو چکے ہیں؟

محسن فخری زادہ 2012 کے بعد سے پہلے ایرانی جوہری سائنسدان ہیں جن پر حملہ کیا گیا ہے۔

محسن فخری زادہ حملہ آوروں کی جانب سے گولیوں کا نشانہ بننے کے بعد زخمی کی تاب نہ کر لا کر ہسپتال میں دم توڑ گئے (اے ایف پی)

محسن فخری زادہ 2012 کے بعد سے پہلے ایرانی جوہری سائنسدان ہیں جن پر حملہ کیا گیا ہے۔

سرکاری میڈیا کے مطابق ایرانی مسلح افواج نے ایک بیان میں بتایا ہے کہ محسن فخری زادہ حملہ آوروں کی جانب سے گولیوں کا نشانہ بننے کے بعد زخمی کی تاب نہ کر لا کر ہسپتال میں دم توڑ گئے۔

وہ بیرونی ممالک کے نزدیک 2003 میں بند کیے گئے ایک پوشیدہ ایٹمی بم پروگرام کے قائد کی حیثیت سے جانے جاتے تھے۔

ایران جوہری ہتھیاروں کے حصول کو ایک طویل عرصے سے مسترد کرتا آیا ہے۔

یہاں حالیہ برسوں میں ایرانی سائنسدانوں پر ہونے ہونے والے حملوں کے بارے میں تفصیل بتائی جا رہی ہے۔

مسعود علی محمدی

جوہری سائنسدان مسعود علی محمدی کو 12 جنوری 2010 کو تہران میں ایک ریموٹ کنٹرول بم سے نشانہ بنایا گیا تھا۔

ایرانی حکام نے فزکس کے پروفیسر کو ایک جوہری سائنسدان بتایا مگر ایک ترجمان کا کہنا ہے کہ انہوں نے ایٹامک انرجی آرگینائزیشن کے لیے کبھی کام نہیں کیا تھا۔ ان کے مطابق وہ تہران یونیورسٹی میں لیکچرز دیتے تھے۔

مغربی ذرائع کا کہنا ہے کہ مسعود علی محمدی نے فخری زادہ اور فریدون عباسی دوانی کے ساتھ کام کیا ہے۔

ایک مغربی فزکس کے پروفیسر کا کہنا ہے کہ علی محمد کا جو کام تہران یونیورسٹی کی ویب سائٹ پر شائع ہوا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ تھیوریٹیکل پارٹیکل فزکس تک محدود تھے نہ کہ نیوکلیئر اینرجی۔

ماجد شہریاری

ماجد شہریاری 29 نومبر 2010 کو ایک کار بم دھماکے میں ہلاک جبکہ ان کی اہلیہ زخمی ہو گئی تھیں۔ اس حملے کے بارے میں ایرانی حکام کا کہنا تھا کہ یہ اس کے اٹامک پروگرام پر اسرائیلی یا امریکی سپانسرڈ حملہ تھا۔

خبر رساں ادارے ایرنا کے مطابق ایران کی اٹامک اینرجی ایجنسی کے چیف علی اکبر صالح کہتے ہیں کہ شہریاری کا ان کے سب سے بڑے جوہری پراجیکٹ میں کردار تھا تاہم انہوں نے اس کی وضاحت نہیں کی۔

ماجد شہریاری شاہد بہشتی یونیورسٹی میں لیکچرار تھے۔

فریدون عباسی دوانی

عباسی دوانی اور ان کی اہلیہ ٹھیک اسی روز ایک کار بم حملے میں زخمی ہو گئے تھے جس روز ماجد شہریاری بم حملے میں ہلاک ہوئے۔

فریدون عباسی دوانی امام حسین یونیورسٹی میں فزکس کے ہیڈ تھے۔ وہ ذاتی طور پر اقوام متحدہ کی پابندیوں کے نشانے پر تھے کیونکہ مغربی حکام کے مطابق وہ مشتبہ جوہری ہتھیاروں کی ریسرچ میں ملوث تھے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس وقت کے انٹیلی جنس کے وزیر حیدر مصلح نے بعد میں کہا تھا کہ ’یہ دہشت گردی سی آئی اے، موساد اور ایم آئی6 جیسی خفیہ ایجنسیوں کی جانب سے کیا گیا ہے۔ گروپ جو دہشت گردانہ کارروائی کرنا چاہتا تھا مگر کامیاب نہیں ہوا، گرفتار کر لیا گیا ہے۔ انہوں نے تسلیم کیا ہے کہ انہیں ان خفیہ ایجنسیوں نے تربیت دی تھی۔‘

فارس نیوز ایجنسی کے مطابق عباسی دوانی کو فروری 2011 میں اٹامک اینرجی آرگنائزیشن نائب صدر مقرر کیا گیا تھا تاہم ایرنا کے مطابق انہیں اگست 2013 میں اس عہدے سے ہٹا دیا گیا۔

داریوش رضائی

داریوش رضائی کو 35 سال کی عمر میں 23 جولائی 2011 کو تہران میں مسلح حملہ آور نے گولی مار کر ہلاک کر دیا تھا۔

وہ یونیورسٹی میں لیکچرار تھے اور فزکس میں پی ایچ ڈی کر رکھی تھی۔ بعض ابتدائی رپورٹس کے مطابق وہ ایران کے جوہری پروگرام سے منسلک تھے تاہم بعد میں نائب وزیر داخلہ سفرعلی براتلو نے کہا کہ ان کا اس پروگرام سے تعلق نہیں تھا۔

مصطفیٰ احمدی روشن

بتیس سالہ احمدی روشن نے کیمیکل انجنیئرنگ میں گریجویشن کر رکھی تھی۔ انہیں جنوری 2012 میں تہران میں بم حملے میں ہلاک کیا گیا تھا۔ بم ایک موٹرسائیکل سوار نے انہی کی گاڑی میں نصب کر رکھا تھا۔

اس حملے میں ایک شخص ہسپتال میں دم توڑ گیا تھا تاہم راہگیر زخمی ہو گیا تھا۔ یہ حملہ بھی نومبر 2010 میں کیے جانے والے حملے جیسا ہی تھا۔

ایران کا کہنا تھا کہ ہلاک ہونے والے مصطفیٰ احمدی روشن ایک جوہری سائنسدان تھے اور نتانز یورینیئم اینرچمنٹ فسیلٹی میں ایک ڈپارٹمنٹ کے سپروائزر تھے۔ ایران نے اس حملے کا الزام اسرائیل اور امریکہ پر لگایا تھا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا