ملتان: جب پی ڈی ایم کے کارکن قیادت سے آگے نکل گئے

بندشوں کے باعث پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کی قیادت کی جانب سے ملتان کے قاسم باغ سٹیڈیم کی بجائے گھنٹہ گھر چوک میں جلسہ کرنے پر بہت سے کارکن ناراض بھی دکھائی دیے۔

پنجاب کے جنوبی ضلع ملتان میں اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) نے پیر کو اپنے جلسے کا اعلان تو قاسم باغ سٹیڈیم میں کیا تھا، لیکن انتظامیہ کی جانب سے سٹیڈیم میں جلسے کی اجازت نہ دینے، کنٹینرز لگا کر راستے سیل کرنے، موبائل سروس بند کرنے اور گرفتاریوں کے باعث پی ڈی ایم کو گھنٹہ گھر چوک میں ہی جلسہ کرنا پڑا۔

پیپلز پارٹی کے 53 ویں یوم تاسیس کے موقع پر منعقدہ اس جلسے کے میزبان سابق وزیر اعظم یوسف رضاگیلانی تھے۔

اس سے قبل پیپلز پارٹی، مسلم لیگ ن اور جمعیت علمائے اسلام ف سمیت دیگر اپوزیشن جماعتوں کے کارکنوں کی بڑی تعداد رکاوٹیں ہٹا کر قاسم باغ سٹیڈیم میں پہنچی اور سٹیج سمیت پنڈال میں اپنے اپنے پارٹی پرچم لہرا دیے۔

شام 5 بجے کے قریب جلسہ انتظامیہ نے اعلان کیا کہ کارکن گھنٹہ گھر چوک جمع ہوجائیں، وہیں قائدین کا خطاب ہوگا تاہم پیپلز پارٹی کے دور دراز سے آئے ہوئے کارکنوں نے اس پر ناراضی کا اظہار کیا۔

محمد خان نامی بزرگ کارکن نے کہاکہ جب کارکن اپنے طور پر ہی سٹیڈیم پہنچ گئے تو مولانافضل الرحمٰن، مریم نواز اور آصفہ بھٹو زرداری کی قیادت میں ریلیاں بھی سٹیڈیم پہنچ سکتی تھیں۔

انہوں نے سوال کیا کہ 'پہلے قیادت نے رکاوٹیں توڑ کر جلسہ گاہ پہنچنے کا اعلان کیا، لیکن بعد میں سمجھوتہ کیوں ہوا؟ اگر ہم اس موقع پر ہی کمزوری دکھائیں گے تو مستقبل میں لاہور سمیت دیگر جلسے روکنا بھی آسان ہوگا۔'

اگرچہ سیاسی کارکن رکاوٹیں توڑ کر جلسہ گاہ میں تو پہنچ گئے تاہم مرکزی راستوں پر کھڑے کنٹینرز نہیں ہٹائے جاسکے، لہذا سٹیڈیم میں پہنچنے والے کارکنوں کو بھی واپس گھنٹہ گھر چوک آنا پڑا، جہاں کنٹینر پر عاضی سٹیج بنایا گیاتھا، جس پر آصفہ بھٹو زرداری، یوسف رضا گیلانی، علامہ ساجد میر، محمود اچکزئی، اختر مینگل، افتخار حسین ودیگر موجود تھے۔

لیکن سٹیج پر پہنچنے کے لیے مریم نواز اور مولانا فضل الرحمٰن کو کارکنوں کے رش سے گزار کر کچھ دیر بعد سٹیج تک پہنچایا گیا۔

ہنگامی انتظامات اور جلسہ گاہ نہ جانے کے اچانک فیصلے کے باعث میڈیا کو بھی کوریج کے دوران شدید مشکلات پیش آئیں۔

ساؤنڈ سسٹم اور لائٹس کا بندوبست نہ ہونے پر کیمروں سے کوریج مشکل تھی، اس لیے میڈیا ورکرز نے جلدی میں عارضی لائٹس لگا کر سٹیج اور مجمع پر روشنی کرکے کوریج کی۔

دوسری جانب موبائل سروس بند ہونے پر رابطوں میں بھی مشکلات پیش آئیں۔

جلسہ میں رکاوٹوں کے باوجود دور دراز کے علاقوں سے مرد و خواتین کارکنوں کی بڑی تعداد شامل ہوئی جبکہ گھنٹہ گھر چوک میں عمارتیں اور آس پاس کی سڑکیں بھی کارکنوں سے بھری ہوئی تھیں۔

پولیس کی جانب سے بھی کارکنوں کو زبردستی روکنے کی حکمت عملی تبدیل ہوگئی۔ ایسا لگتا تھا کہ کارکنوں نے قیادت کو پیچھے چھوڑ دیا۔

بیانات کے وار

کئی دنوں کے حکومت اور پی ڈی ایم کے درمیان جلسے کے حوالے سے جاری کھینچا تانی میں حکومت کے اقدامات کے بعد تحریک کے رہنماؤں نے گذشتہ دنوں میں سخت تنقیدی بیان دیے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ن لیگ کی مریم نواز دعویٰ کر چکی ہیں کہ ’حکومت آخری سانسوں پر ہے۔ ان کے اقدامات سے اندازہ لگالیں یہ جلد گھر جانے والے ہیں۔‘

ان کا کہنا تھا: ’جب خاندانوں اور گھروں پر برا وقت آتا ہے تو بیٹیاں اور خواتین باہر نکلتی ہیں۔میری طرح بلاول کی جگہ آصفہ میدان میں آرہی ہیں، ملتانیوں سے درخواست ہے اس موقع پر مشکلات کی پرواہ نہ کریں اور باہر نکلیں۔‘

حکومت نے جلسے کو روکنے کا موقف یہ دیا ہے کہ اس سے کرونا (کورونا) وائرس کے پھیلنے کا خطرہ ہے، تاہم اس پر تنقید کرتے ہوئے مریم نواز نے کہا: ’حکومت کرونا سے نہیں بلکہ اپنی نااہلی سے خوف زدہ ہے۔‘

انہوں نے سوال کیا: ’حکمران جماعت کے جلسوں سے کرونا نہیں پھیلتا؟ کیا صرف اپوزیشن کے جلسوں سے پھیلتا ہے؟‘

مولانا فضل الرحمن نے بھی کارکنوں کو ہدایت کی کہ ’اگر ڈنڈے سے روکا جائے تو وہ بھی ڈنڈا استعمال کریں۔‘

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان