عافیہ صدیقی پاکستان نہیں آنا چاہتیں: دفتر خارجہ

ترجمان دفتر خارجہ ڈاکٹر محمد فیصل نے کہا ہے کہ حکومت پاکستان ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی واپسی کے پہلوؤں کو دیکھ رہی ہے لیکن ان کی اطلاعات کے مطابق وہ خود پاکستان نہیں آنا چاہتی ہیں۔

ترجمان دفتر خارجہ ڈاکٹر محمد فیصل نے کہا ہے کہ حکومت پاکستان ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی واپسی کے پہلوں کو دیکھ رہی ہے لیکن ان کی اطلاعات کے مطابق وہ خود پاکستان نہیں آنا چاہتی ہیں۔

انڈپینڈنٹ اردو کو ایک خصوصی انٹرویو دیتے ہوئے ڈاکٹر فیصل نے کہا کہ اگر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور وزیر اعظم عمران خان کی مستقبل میں ملاقات ہوئی تو عافیہ صدیقی اور شکیل آفریدی کے تبادلے پر بات ہو سکتی ہے۔ ’ڈاکٹر عافیہ اور ڈاکٹر شکیل کا کچھ ہو تو ہو، ویسے میری اطلاعات کے مطابق وہ خود پاکستان نہیں آنا چاہتی ہیں۔‘

انھوں نے کہا کہ اس سلسلے میں گذشتہ برس ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی بہن ڈاکٹر فوزیہ صدیقی نے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی سے ملاقات کر کے امریکہ سے اس معاملے کو اٹھانے کے درخواست بھی کی تھی۔

وزیر خارجہ نے اپنی ٹویٹ میں کہا تھا کہ ڈاکٹر عافیہ کی وطن واپسی کے ممکنہ طریقے پر غور کر رہے ہیں۔ ہیوسٹن میں موجود قونصلر جنرل عائشہ فاروقی نے بعد میں وزیر خارجہ کی ہدایت پر ڈاکٹر عافیہ سے ملاقات بھی کی تھی۔

’کسی کا ایسا کہنا کہ عافیہ خود پاکستان نہیں آنا چاہتیں بے بنیاد ہے‘

ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی بہن ڈاکٹر فوزیہ نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اگر کوئی یہ کہتا ہے کہ عافیہ خود پاکستان آنا نہیں چاہتیں تو یہ مکمل طور پر بے بنیاد بات ہے۔ انھوں نے کہا کہ رواں ماہ ہیوسٹن میں موجود قونصل خانے کے حکام نے عافیہ سے ملاقات کی تھی۔

ڈاکٹر فوزیہ نے کہا کہ ایک وقت ایسا آیا کہ لگا عافیہ کسی بھی لمحے پاکستان آنے والی ہیں۔ انھوں نے کہا کہ حکومت کی جانب سے انہیں یقین دہانی کرائی گئی ہے کہ امریکہ سے بات چیت جاری ہے اور جنوری سے مارچ کے دوران کوئی خوشخبری ملے گی لیکن اب پھر خاموشی چھا گئی ہے۔

’عافیہ نے مجھ سے فون پر کہا کہ وہ ہر قسم کے دستاویز پر دستخط کرنے کے لیے تیار ہیں بس ان کو کسی طرح جیل سے نکالا جائے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

کیا آسیہ بی بی پاکستان میں موجود ہیں؟

توہین مذہب کے الزام سے بریت پانی والی مسیحی خاتون آسیہ بی بی کے حوالے سے ڈاکٹر فیصل نے کہا کہ آسیہ بی بی اب تک پاکستان میں موجود ہیں اور یہ کہنا کہ وہ ملک سے جا چکی ہیں درست نہیں ہے۔ وہ محفوظ مقام پر پاکستان میں ہی موجود ہیں لیکن جب عدالتی فیصلہ آچکا ہے تو آسیہ بی بی کو چلے جانا چاہیے۔ انھوں نے کہا کہ ان کے خیال میں وہ جلد پاکستان سے چلی جائیں گی۔

کیا ملکی خارجہ پالیسی پر سیاست یا ادارے اثر انداز ہیں؟ اس سوال کے جواب میں ڈاکٹر فیصل مسکرائے اور کہا کہ خارجہ پالیسی دفتر خارجہ میں ہی بنتی ہے لیکن خارجہ پالیسی تمام پالیسیوں کا مرکب ہوتی ہے جس میں مالی، تجارتی اور بالخصوص سکیورٹی کے معاملات شامل ہیں۔ ’ساری دنیا میں ایسا ہی ہوتا ہے۔ ملکی سکیورٹی خارجہ پالیسی کے ساتھ منسلک ہوتی ہے۔‘

بھارتی انتخابات کے بعد تعلقات بحالی کی امید ہے؟

اس سوال کے جواب میں ترجمان دفتر خارجہ نے کہا کہ پاکستان، بھارت کے درمیان خطرہ مکمل طور پر ٹلا نہیں ہے لیکن بھارتی انتخابات کے بعد حالات بہتر ہونے کی امید ہے۔ ’پاکستان تو مشکل وقت میں بھی بھارت کے ساتھ مثبت رویہ رکھتا رہا ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ بھارت میں جو بھی نئی حکومت آئے گی پاکستان اس کے ساتھ امن مذاکرات کی بات آگے بڑھانا چاہے گا۔ ’لیکن بھارت نے 14ستمبر 2018 کو لکھا گیا پاکستانی وزیر اعظم کا خط جس میں امن مذاکرات کی دعوت دی گئی ہے اس کا ابھی تک جواب نہیں دیا۔ امید ہے نو منتخب حکومت سات ماہ پرانے خط کا جواب دے گی۔‘

 پاکستان کی خارجہ پالیسی کو کیا چیلینج درپیش ہیں؟

ترجمان دفتر خارجہ نے کہا کہ پاکستانی خارجہ پالیسی کو ہر طرف سے مشکلات کا سامنا ہے اور صورتحال نازک ہے۔ ’ہمارے مشرقی اور مغربی دونوں سرحدوں پر مسائل ہیں۔ افغانستان میں مسائل کو چار دہائیوں سے زیادہ ہو گیا ہے۔ یہ بڑا گھمبیر سا معاملہ ہے دونوں سرحدوں کی جانب۔

ڈاکٹر فیصل نے کہا کہ کبھی کبھی ایران کی طرف بھی کچھ تلخی ہو جاتی ہے تو اس معاملے میں بڑی احتیاط سے خارجہ پالیسی چلانی پڑتی ہے اور ’مجھے یہ کہتے ہوئے بڑی خوشی محسوس ہوتی ہےکہ ہم اس میں کافی کامیاب ہیں۔‘

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان