جب 27 سال بعد کشور کمار نے اپنے بھائی کے گانے کو نئی شناخت دی

فلم  'پڑوسن' میں شامل یہ گیت آج تک سننے اور دیکھنے والوں پر دلچسپ تاثر چھوڑ جاتا ہے، جو اس سے قبل اشوک کمار نے گایا تھا۔

 'پڑوسن' کے اس گیت کی سچویشن کے مطابق ہیروئن سائرہ بانو اور ان کے ماسٹر جی محمود  پر یہ ظاہر کیا جاتا ہے جیسے سنیل دت گا رہے ہیں جبکہ حقیقت میں گلوکاری کشور کمار کر رہے ہوتے ہیں۔ (سکرین گریب)

کشور کمار کسی صورت اس فلم کے لیے تیار نہیں تھے جبکہ کامیڈین محمود نے بھی اٹل فیصلہ کرلیا تھا کہ چاہے کچھ بھی ہوجائے  وہ کشور کمار کو ضرور اس فلم کا حصہ بنائیں گے کیونکہ وہ چاہتے تھے کہ ان کے پروڈکشن ہاؤس کے تحت بننے والی اس فلم میں کشور کمار ضرور اپنی اداکاری کے جوہر دکھائیں۔

کوئی ایک مہینے تک کشور کمار ٹال مٹول سے کام لیتے رہے، کبھی مصروفیات کا بہانہ تو کبھی ناسازی طبیعت کا،  کبھی یہ بھی شکوہ کہ محمود کی اس فلم میں ان کا کردار پسند نہیں آیا۔

ایسی صورت حال میں محمود نے بھی ہمت نہیں ہاری  اور ایک رات کشور کمار کے گھر پہنچے اور ایک بار پھر اس فلم میں کام کرنے کی فرمائش کی، جواب تو حسب روایت 'ناں' میں ہی ملا لیکن کشور کمار کے گھر سے نکلتے ہوئے محمود کو نجانے کیا سوجھی کہ پلٹ کر واپس آئے اور کشور کمار کو مخاطب کرکے بولے کہ وہ ان کے گھر کے باہر ہی بیٹھے ہیں، جب تک کشور کمار 'ہاں' نہیں کہیں گے، وہ جائیں گے نہیں۔

 پہلے پہل تو کشور کمار نے اسے محمود کا کوئی مذاق ہی سمجھا، لیکن وقفے وقفے سے جب جب  وہ کھڑکی سے جھانک کر دیکھتے تو محمود گھر کے سامنے  واقعی کسی ہڑتالی کارکن کی طرح ڈٹے ہوئے نظر آئے۔ ہتھیار ڈالنے ہی پڑے اور کوئی رات تین ساڑھے تین بجے کشور کمار نے محمود کو گرین سگنل دیا کہ وہ تیار ہیں۔

ذکر ہو رہا ہے 1968میں بڑے پردے کی زینت بننے والی ایور گرین میوزیکل رومانٹک فلم 'پڑوسن' کا، جو 16سال پہلے ریلیز ہونے والی بنگالی زبان کی فلم 'پاشر باری'  کا ہندی ری میک تھی۔ سائرہ بانو، سنیل دت، محمود اور اُوم پرکاش کی اس فلم میں کشور کمار سٹیج اداکار اور گلوکار ودیا پتی کے روپ میں جلوہ گر ہونے جارہے تھے اور اس کردار کا گیٹ اپ انہوں نے اپنے کلاسیکل ڈانسر رشتے دار دھانجے بینر جی اور موسیقار کھیم چند پرکاش سے متاثر ہو کر دھارا تھا۔

جس کردار کو کشور کمار نے ادا نہ کرنے پر محمود کو تگنی کا ناچ نچایا تھا، وہ اب  اس میں غیر معمولی حد تک دلچسپی دکھا رہے تھے۔ فلم کے کسی منظر میں اگر ہدایتکار جیوتی سوروپ کہیں پھنستے تو یہ کشور کمار ہی تھے جو مختلف ماہرانہ مشوروں سے اس مشکل سے انہیں نکالتے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس کا اندازہ یوں لگایا جاسکتا ہے کہ گیت  'میری بندو'  جس کی کمپوزیشن بھی خود کشور کمار کی تھی۔ اس گانے کے لیے جب سیٹ پر کوریو گرافر نہ آسکا تو  یہ کشور کمار ہی تھے جنہوں نے سنیل دت، مقری،  کسٹو مکرجی اور راج کشور کو سمجھایا کہ انہیں کس طرح پرفارم کرنا ہے۔

اب یہ پیشہ ورانہ رقابت ہی کہی جاسکتی ہے کہ محمود اور ہیرو سنیل دت کو یہ خوف بھی ستانے لگا کہ کہیں کشور کمار کی وجہ سے ان کا کردار دب نہ جائے، اسی لیے کشور کمار کے کئی مناظر ایڈیٹنگ ٹیبل پر کاٹ بھی دیے گئے، مگر اس کے باوجود 'پڑوسن' میں جس کردار کو مقبولیت ملی وہ کشور کما ر کا ہی تھا۔

فلم پنڈتوں کا ماننا ہے کہ جن جن مناظر میں کشور کمار آئے  وہ ان میں چھا گئے اور فلم بین انتظار کرتے رہے کہ کب پھر سے کشور کمار نظر آئیں گے۔  اس فلم کو بھارت کی کئی علاقائی زبانوں میں بار بار بنایا جاچکا ہے۔

فلم کے موسیقار راہول دیو برمن تھے۔ صورتحال اس وقت دلچسپ ہوگئی جب ایک گیت کی سچویشن آئی کہ ہیرو سنیل دت کا ہیروئن سائرہ بانو کے ماسٹر جی کے درمیان گلوکاری کا مقابلہ ہوتا ہے۔ گیت کے بول کیا ہوں؟ نغمہ نگار راجندر کشن اور موسیقار آر ڈی برمن پریشان تھے۔ تبھی اس گیت کے مکھڑے کے لیے کشور کمار کو  بڑے بھائی اشوک کمار کی 1941میں ریلیز ہونے والی فلم 'جھولا ' کے ایک گانے 'ایک چتر نار کرکے سنگھار'  کا خیال آیا۔ موسیقار سرسوتی دیوی کی دھن پر گلوکاری خود اشوک کمار نے کی تھی۔ 'جھولا' وہی فلم تھی جس نے اشوک کمار کو فلموں میں قدم جمانے کا موقع دیا۔ جس کے بعد ان کی کامیابی اور کامرانی کا نیا سورج طلوع ہوا اور بھلا محمود کیسے اس فلم کو فراموش کرسکتے ہیں جس میں ان کے والد ممتاز علی نے بھی اپنی اداکاری کے جلوے دکھائے تھے۔

اب 'ایک چتر نار کرکے سنگھار' کے مکھڑے کو لے کر نغمہ نگار راجندر کشن نے بول لکھنا شروع کیے اور جب  پرانے گیت میں معمولی سی تبدیلی کے بعد گانا تیار ہوا تو ہر کوئی جھوم اٹھا، جسے منا ڈے اور کشور کمار کی آواز میں ریکارڈ کیا گیا جبکہ محمود نے درمیان میں جگل بندی کا تڑکا بھی لگایا۔

 'پڑوسن' کے اس گیت کی سچویشن کے مطابق ہیروئن سائرہ بانو اور ان کے ماسٹر جی محمود  پر یہ ظاہر کیا جاتا ہے جیسے سنیل دت گا رہے ہیں جبکہ حقیقت میں گلوکاری کشور کمار کر رہے ہوتے ہیں۔ سننے کے ساتھ ساتھ یہ گانا دیکھنے کے قابل بھی ہے، جس میں محمود، سنیل دت،  کشور کمار اور دیگر اداکاروں نے بھی خوب لوٹ پوٹ کیا۔ یوں ایک ایسا گانا جو اشوک کمار کی گلوکاری میں کوئی مثال قائم نہ کرسکا، کشور اور مناڈے نے اسے عوامی بنا دیا۔

فلم کی نمائش کے بعد تو یہ گیت آئندہ کئی برسوں تک ہر ایک کے لبوں پر گنگناتا رہا  اور آج تک یہ گیت سننے اور دیکھنے والوں پر دلچسپ تاثر چھوڑ جاتا ہے۔ یہ کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا کہ یہی گیت فلم کی شناخت بنا جبکہ بیشتر پرستاروں کو جب  معلوم ہوا کہ یہ 27 سال پہلے ریلیز ہونے والی فلم کے گیت کا مکھڑا ہے تو انہوں نے اس گیت کا بھی لطف اٹھایا، جس میں اشوک کمار بڑے دلچسپ انداز میں گلوکاری کرتے ہوئے چہرے کے بنتے بگڑتے تاثرات سے منفرد ہی نظر آتے ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی فن