عسکری قیادت کی تنخواہوں، اثاثوں کی معلومات عام کی جاسکتی ہیں؟

ویمن ایکٹو فورم نامی این جی او اور دیگر سماجی کارکنوں نے معلومات تک رسائی کے قوانین کے تحت وزارت دفاع سے رابطہ کرکے پاکستان کی عسکری قیادت اور ان کے اہل خانہ کی تنخواہوں، مراعات اور اثاثوں سے متعلق معلومات فراہم کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔

23 مارچ 2019 کو لی گئی اس تصویر میں پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ اسلام آباد میں  یوم پاکستان کے سلسلے میں منعقدہ پریڈ میں شریک ہیں ، جبکہ ان کے پیچھے پاکستانی فضائیہ اور پاکستانی بحریہ کے سربراہ بھی موجود ہیں (اے ایف پی)

حال ہی میں ویمن ایکٹو فورم نامی ایک این جی او اور دیگر سماجی کارکنوں نے معلومات تک رسائی کے قوانین کے تحت وزارت دفاع سے رابطہ کرکے پاکستان کی عسکری قیادت اور ان کے اہل خانہ کی تنخواہوں، مراعات اور اثاثوں سے متعلق معلومات فراہم کرنے کا مطالبہ کیا تھا، تاہم جواب نہ ملنے پر پاکستان انفارمیشن کمیشن میں اپیل دائر کردی گئی، جس کے بعد اس حوالے سے بحث شروع ہوگئی کہ کیا یہ معلومات عام کی جاسکتی ہیں؟

ویمن ایکٹو فورم نے پاکستان انفارمیشن کمیشن میں دائر کی گئی اپیل میں موقف اختیار کیا کہ وزارت دفاع نے یہ کہہ کر انکار کردیا کہ 'سکیورٹی کے باعث یہ معلومات عام نہیں کی جاسکتیں۔'

واضح رہے کہ ویمن ایکٹو فورم نے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ  سمیت تمام لیفٹیننٹ جنرلز، میجر جنرلز، بریگیڈیئرز اور اسی طرح پاکستانی فضائیہ اور بحریہ کی اعلیٰ قیادت اور ان کے اہل خانہ کے حوالے سے معلومات مانگی تھیں۔

جس پر پیر (7 دسمبر) کو پاکستان انفارمیشن کمیشن نے ویمن ایکٹیو فورم کی اپیل پر وزارت دفاع کو ہدایات جاری کیں کہ 'وہ ان درخواستوں کو اپنے ایس او پیز کے مطابق طے کریں اور پاکستان انفارمیشن کمیشن میں دس دن کے اندر جواب داخل کریں جبکہ تاخیری حربے اختیار کرنے پر متعلقہ افسر کے خلاف تادیبی کارروائی بھی کی جا سکتی ہے۔'

اس حوالے سے انگریزی اخبار ڈان میں شائع کی گئی ایک خبر کے بعد پاکستان انفارمیشن کمیشن نے اپنے آفیشل ٹوئٹر ہینڈل سے وضاحت بھی جاری کی کہ وزارت دفاع کو معلومات عام کرنے کی کوئی ہدایات جاری نہیں کی گئی اور نہ ہی یہ اپیلوں کا حتمی فیصلہ ہے بلکہ وزارت دفاع سے کہا گیا ہے کہ درخواستوں پر ایس او پیز کے مطابق جواب دیں۔

انڈپینڈنٹ اردو نے اس حوالے سے پاکستان انفارمیشن کمیشن کے چیف انفارمیشن کمشنر اعظم خان سے رابطہ کیا، جنہوں نے بتایا کہ ایک این جی او نے فوجی افسران اور ان کے اہل خانہ سے متعلق معلومات مانگی تھی، لیکن معلومات تک رسائی کے قانون کے سیکشن 6/5 کے تحت دی گئی تفصیلات کے مطابق کوئی بھی شہری معلومات حاصل کر سکتا ہے لیکن اثاثوں سے متعلق معلومات نہیں دی جا سکتیں۔

بقول اعظم خان: 'قانون کے مطابق پاکستان انفارمیشن کمیشن کسی کی پرائیویسی میں مداخلت نہیں کرتا۔'

نوٹس کے اجرا سے متعلق انہوں نے بتایا کہ یہ صرف ابتدائی کارروائی تھی کیونکہ ان کے پاس درخواستیں آئیں تو انہوں نے دوسرے فریق (وزارت دفاع) کو نوٹس جاری کرتے ہوئے ان کا جواب مانگا۔

'یہ صرف میرا فیصلہ نہیں ہو گا۔ جب سماعت ہوگی تو تین رکنی بورڈ بیٹھے گا جو وزارت دفاع کے جواب اور قانون کو سامنے رکھ کر فیصلہ کرے گا۔'

آئین اور قانون کیا کہتا ہے؟

اس حوالے سے ایڈیشنل ایڈوکیٹ جنرل پنجاب فیصل چوہدری نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ آئین کے آرٹیکل 19 اے کےتحت کوئی بھی شہری معلومات تک رسائی کا حق رکھتا ہے لیکن معلومات تک رسائی بھی قواعد و ضوابط اور وجوہات سے مشروط ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے کہا کہ 'یہ فرد واحد کا معاملہ نہیں ہے کہ کہا جائے کہ اس شخص کے ساتھ آپ کا کوئی معاملہ ہے یا آپ متاثرہ فریق ہیں یا آپ کو اس شخص کے اثاثوں سے متعلق کوئی مشکوک خبر ملی ہے، اس لیے یہ معاملہ مفاد عامہ کے تحت عام ہونا چاہیے۔'

انہوں نے کہا کہ 'بغیر کسی ٹھوس وجہ کے وسیع پیمانے پر تمام افواج اور ان کے اہلخانہ کی معلومات کے حصول پر قانون یہ سوال بھی اٹھا سکتا ہے کہ اس معلومات کا استعمال کہاں ہوگا؟'

فیصل چوہدری کے مطابق: 'ایسا معاملہ جب عدالت میں آئے تو معلومات تک رسائی کے حق اور وجوہات کو ثابت کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ یہ اتنا آسان نہیں ہے کہ آپ کسی کی بھی ذاتی معلومات بغیر ٹھوس وجہ کے حاصل کرنے کے لیے درخواست دے دیں۔'

تاہم ان کا مزید کہنا تھا کہ 'جہاں معلومات تک رسائی کا حق موجود ہے تو آئین بنیادی حقوق میں پرائیویسی کا حق بھی دیتا ہے۔'

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ 'سروس چارٹ پبلک کرنے میں حرج نہیں ہے لیکن اس حوالے سے متعلقہ وزارت کے ایس او پیز بھی دیکھے جاتے ہیں۔'

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان