جرنیلوں اور سینیئر ججوں کے اثاثے ظاہر کرنے کے لیے درخواست دائر

ویمنز ایکشن فورم نے رائٹ ٹو انفارمیشن ایکٹ کے تحت پاکستان کے سینیئر فوجی افسران اور ججوں کے مالیاتی اثاثوں کی مکمل تفصیلات جاننے کے لیے متعلقہ اداروں کو درخواست بھیجی ہے۔

(اے ایف پی)

خواتین محاذ عمل پاکستان (ویمنز ایکشن فورم) نے رائٹ ٹو انفارمیشن ایکٹ کے تحت پاکستان کے سینیئر ججوں اور سینیئر فوجی افسران کے مالیاتی اثاثے ظاہر کرنے کے لیے متعلقہ اداروں کو درخواست بھیجی ہے۔

ویمنز ایکشن فورم (ڈبلیو اے ایف) کا کہنا ہے کہ آئین پاکستان کے تحت مشترکہ اثاثے ظاہر کرنے کی شرط کو صرف منتخب پارلیمانی نمائندوں تک محدود نہ رکھا جائے بلکہ اس کا اطلاق تمام ریاستی اداروں کے سینیئر افسران پر بھی ہونا چاہیے۔

ویمنز ایکشن فورم کی نیشنل کوآرڈینیٹر نگہت سعید خان نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ انہوں نے پہلے مرحلے میں اعلیٰ عدلیہ کے ججز اور پاک فوج کے افسران کے اثاثوں کی تفصیلات حاصل کرنے کے لیے رائٹ ٹو انفارمیشن ایکٹ کے تحت وفاقی وصوبائی انفارمیشن آفیسرز، سپریم کورٹ اور چاروں ہائی کورٹس کے رجسٹرارز، سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس کے چیف جسٹسز، سیکرٹری لا ڈویژن اور سیکرٹری دفاع کو درخواست بھجوا دی ہے۔

ان کا کہنا تھا: 'یہ درخواست پاکستان کے وسیع تر قومی مفاد میں بھجوائی گئی ہے۔ پاکستان کے شہری ہونے کی حیثیت سے ایسا کرنا ہمارا فرض ہے۔اگر آئین کے مطابق 11 دن میں یہ معلومات فراہم نہ کی گئیں تو دوسرے مرحلے میں رائٹ ٹو انفارمیشن کمیشن میں درخواست دیں گے اور اگر پھر بھی درخواست پر عمل نہ کیا گیا تو سپریم کورٹ آف پاکستان سے رجوع کریں گے۔'

انہوں نے یاد دلایا کہ 19 جون کو عدالت عالیہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ بنام فیڈریشن آف پاکستان کیس میں واضح کر چکی ہے کہ ججز اور ان کے بیوی بچوں (زیر کفالت یا بصورت دیگر) کے مالیاتی امور عوامی اہمیت کے امور ہیں۔ 'جب ہر پاکستانی کے لیے اثاثے ظاہر کرنا لازمی ہے تو پھر متعدد اداروں کے اعلیٰ افسران کے اثاثوں کی تفصیل پبلک کیوں نہیں کی جاتیں؟'

ڈبلیو اے ایف اس حوالے سے متعلقہ اداروں کو دی گئی درخواست میں موقف اختیار کیا کہ عدالت عالیہ نے خود قانونی معیار بنا دیا ہے، اس لیے ہم سمجھتے ہیں کہ مالی شفافیت کے اس اصول کو بلا امتیاز سارے سینیئر سرکاری حکام پر لاگو کیا جاہے۔

درخواست میں کہا گیا کہ انصاف کی فراہمی اور احتساب کو یقینی بنانے کے لیے سرکاری اداروں کے سربراہوں اور سینیئر افسران کو ایسی تحقیق اور معلومات سے استثنیٰ حاصل نہیں ہونا چاہیے۔ درخواست میں مزید مطالبہ کیا گیا کہ جو معلومات مانگی گئی ہیں وہ مستند ہوں، آسانی سے میسر ہوں اور کسی بہانے سے انہیں چھپایا نہ جائے۔

اثاثوں کی کیا کیا تفصیلات مانگی گئیں؟

ویمنز ایکشن فورم نے اپنی تحریری درخواست میں آئین کے آرٹیکل 19 اے کے تحت جن سرکاری حکام کے اثاثوں کی تفصیلات فراہم کرنے کا مطالبہ کیا ہے، ان میں چیف جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان سمیت عدالت عظمیٰ کے تمام ججز، اسلام آباد اور چاروں صوبائی ہائی کورٹس کے چیف جسٹسز اور دیگر ججز شامل ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اسی طرح چیف آف آرمی سٹاف، مسلح افواج کے تمام لیفٹیننٹ جنرلز، میجر جنرلز، بریگیڈیئرز، فضائیہ کے ایئرچیف مارشل، ایئر مارشلز، ایئروائس مارشلز، پاکستان بحریہ کے ایڈمرل، وائس ایڈمرل، رئیر ایڈمرلز اور کموڈورز کے اثاثوں کی معلومات ظاہر کرنے کی درخواست کی گئی ہے۔

جن تفصیلات کی فراہمی کا مطالبہ کیا گیا ہے ان میں

1۔ مذکورہ شخصیات کی آمدنی اور اثاثے اور ان کے بیوی بچوں کی آمدن اور اثاثے

2۔ انہیں ملنے والی سہولیات اور مراعات

3۔ پینشن اور ریٹائرمنٹ کے بعد ملنے والے فوائد

4۔ 2017 سے 2020 تک کتنا انکم ٹیکس ادا کیا گیا؟

5۔ کسی بھی سرکاری سکیم، ریاستی ملکیت یا قانونی ادارے، فاؤنڈیشن یا ایجنسی سے گذشتہ پانچ سال میں ملنے والے پلاٹوں کی تفصیلات فراہم کی جائیں۔

اس معاملے پر انڈپینڈنٹ اردو نے لاہور ہائی کورٹ کی متعلقہ برانچ سے رابطہ کیا لیکن اثاثوں سے متعلق درخواست موصول ہونے یا نہ ہونے کی معلومات حاصل نہ ہوسکیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان