بھارتی کسان کیوں احتجاج کر رہے ہیں؟

بھارت کے لاکھوں کسان غصے میں ہیں، انہیں خدشہ ہے کہ نئے قوانین انہیں بڑی کمپنیوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیں گے۔

سنگھو سرحد پر جاری کسانوں کے دھرنے کے اکثر شرکا پنجاب اور ہریانہ سے آئے ہیں اور وہ سکھ مذہب کے پیروکار ہیں۔ (تصویر: اے ایف پی)

بھارت کے دارالحکومت نئی دہلی میں گذشتہ دو ہفتوں سے ہزاروں کسان احتجاج کر رہے ہیں اور حکومت سے مذاکرات کے کئی دور ناکام ہوچکے ہیں۔ آخر ان کسانوں کو کیا پریشانی ہے؟

سنگھو سرحد پر جاری کسانوں کے دھرنے کے اکثر شرکا پنجاب اور ہریانہ سے آئے ہیں اور وہ سکھ مذہب کے پیروکار ہیں۔ انہیں دراصل نئی دہلی جانا تھا اور وہاں تاریخی ’رام لیلا میدان‘ میں اپنا احتجاج ریکارڈ کروانا تھا لیکن سکیورٹی فورسز کے روکے جانے کے بعد وہ یہیں دھرنے پر بیٹھ گئے۔ پولیس نے انہیں شہر میں داخل ہونے سے ابھی تک روکا ہوا ہے۔

یہ احتجاج کوئی اکیلی تحریک نہیں ہے۔ 26 نومبر 2020 کو اڑھائی کروڑ افراد نے 24 گھنٹے کی عام ہڑتال بھی کی جو ستمبر میں ملک کی پارلیمان کی جانب سے منظور کیے جانے والے نئے زرعی قوانین کے خلاف تھی۔

مبصرین کے مطابق اس احتجاج کے حجم کے بارے میں تعجب نہیں ہونا چاہیے کیونکہ بھارت کی کام کرنے والی آبادی کا نصف زراعت سے منسلک ہے، تاہم ملک کے جی ڈی پی میں اس کا حصہ کم ہے۔

نئے زرعی قوانین کیا کہتے ہیں؟

بھارت میں کسان ہندو قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی حکومت کے منظور کردہ تین متنازع زرعی قوانین کی واپسی، اناج منڈیوں کو ختم نہ کرنے، اناج کی کم سے کم سپورٹ پرائس یا ایم ایس پی کو برقرار رکھنے اور کسانوں کے قرضے معاف کرنے کے مطالبات کو لے کر سراپا احتجاج ہیں۔

نئی اصلاحات میں زرعی اجناس کی قیمت، فروخت اور ذخیرہ کرنے کے حوالے سے موجود قواعد کو نرم کیا گیا ہے۔ بھارتی کسان ان قواعد کی وجہ سے اب تک آزاد مارکیٹ کی قوتوں سے محفوظ رہے ہیں۔

نئے قوانین کے تحت نجی خریدار بھی مستقبل میں فروخت کے لیے ضروری اجناس ذخیرہ کر سکتے ہیں جو کہ اس سے قبل صرف حکومتی ایجنٹ کر سکتے تھے۔

ایک بڑی تبدیلی یہ ہے کہ کسان اپنی پیداوار براہ راست نجی شعبے کو فروخت کر سکیں گے۔ زیادہ تر بھارتی کسان اس وقت اپنی پیداوار کا زیادہ تر حصہ حکومت کے زیر انتظام تھوک منڈیوں میں امدادی قیمت پر فروخت کرتے ہیں۔

کسانوں کا کہنا ہے کہ حکومت کی جانب سے دو فصلوں گندم اور چونا کی کم از کم امدادی قیمت مقرر کی گئی ہے، وہ ختم کرکے بھارتی سرمایہ دار گروپوں انبانی اور اڈانی کو فائدہ پہنچانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ ان کے مطابق کسانوں سے زراعت کو ان کارپوریٹ گروپوں کے حوالے کرنے کے اقدامات کیے جا رہے ہیں۔

مسئلہ ہے کیا؟

وزیر اعظم نریندر مودی ابھی تک کسانوں کے خلاف اپنے موقف پر ڈٹے ہوئے ہیں۔ ان کا موقف ہے کہ نئے قوانین کسانوں کو زیادہ آزادی دیں گے، ان کی اجناس کی اچھی مارکیٹنگ ہوسکے گی اور ریگولیٹری بندشیں دور ہوں گی۔

لیکن بعض ماہرین حکومت کے موقف کو بھاری قرار دیتے ہیں۔ معاشی ماہرین نے کافی عرصے سے بھارت میں غیرمنظم زرعی شعبے میں اصلاحات کی ضرورت پر زور دیا ہے جہاں درمیانے تاجر یا مڈل مین قیمتیں بڑھانے، ترسیل میں کمی اور غذا کے ضائع ہونے کا سبب بنتے ہیں۔

زیادہ تر بھارتی کسان صرف چند ایکڑ زمین رکھتے ہیں جہاں ترقی یافتہ معیشتوں کی طرح بڑے پیمانے پر مشینوں سے فائدہ نہیں اٹھایا جاسکتا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

کسانوں کے اس احتجاج کی ملک کی 24 مختلف سیاسی جماعتوں  نے حمایت کی ہے۔

لیکن بھارت کے لاکھوں کسان غصے میں ہیں۔ انہیں خدشہ ہے کہ نئے قوانین انہیں بڑی کمپنیوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیں گے۔ معروف صحافی برکھا دت نے واشنگٹن پوسٹ میں لکھا کہ ملک میں اس احتجاج کی عمومی حمایت موجود ہے۔

مودی سرکار کے لیے اس کا مطلب کیا ہے؟ اس موقع پر ماہرین سمجھتے ہیں کہ زرعی اصلاحات ضروری ہیں یا نہیں یہ بعد کی بات ہے۔ ابھی تو ایسا ظاہر ہوتا ہے کہ نئی دہلی نے سیاسی طور پر اس احتجاج کا درست اندازہ نہیں لگایا تھا۔

نہ صرف نئے قوانین پارلیمانی کمیٹیوں کو بھیجے جانے کے بغیر ستمبر میں منظور ہوئے بلکہ کرونا (کورورنا) وائرس کے حوالے سے بھارتی حکومت کی ناکام تدبیر کے تناظر میں شاید یہ موقع محل نہیں تھا۔ احتجاج کرنے والوں کا غصہ اس معاملے میں مشاورت نہ کیے جانے کی وجہ سے زیادہ ہے۔

مودی ماضی میں دوسرے کئی بڑے فیصلے جمہوری فیصلہ سازی کے اصولوں کے بغیر کرتے رہے ہیں۔ 2016 میں انہوں نے بھارتی روپیے کی اچانک ڈی مونیٹائزیشن کا اعلان کیا جس سے ملک کی منڈیوں پر انتہائی برا اثر پڑا۔ کشمیر کی خصوصی حیثیت کی گذشتہ برس 5 اگست کو تنسیخ نے ملک کو حیران کر دیا تھا۔ پھر فروری میں مودی نے اچانک لاک ڈاؤن کا اعلان کیا جسے دنیا کا ایک سخت ترین لاک ڈاؤن قرار دیا گیا لیکن اس سے لاکھوں افراد کو شہروں سے دور دیہات میں اپنے گھروں تک پیدل سفر کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا۔

ماضی کے ان فیصلوں کے برعکس جس پر کوئی زیادہ مزاحمت دکھائی نہیں دی، اس مرتبہ کسانوں کا احتجاج مودی کے لیے سنگین مسئلہ بنے گا یا نہیں؟ اس بارے میں کچھ کہنا ابھی مشکل ہے۔

البتہ نئے زرعی قوانین کے خلاف دو ہفتے سے سراپا احتجاج کسانوں نے 14 دسمبر کو ایک اور ملک گیر احتجاج کی کال دے دی ہے۔ انہوں نے جے پو۔دہلی اور دہلی۔آگرہ ایکسپریس وے بند کرنے کی دھمکی بھی دی ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا