بھارت میں متنازع زرعی قوانین کے خلاف کسانوں کی احتجاجی تحریک ہر گزرتے دن کے ساتھ زور پکڑ رہی ہے۔ منگل کو کسانوں نے اپنے مطالبات کے حق میں ’بھارت بند‘ منایا جس کی حمایت دو درجن سیاسی جماعتوں، کچھ مزدور تنظیموں اور ٹرانسپورٹ یونینز نے کی۔
جہاں کسان اپنے مطالبات پر ڈٹے ہوئے ہیں، وہیں دارالحکومت نئی دہلی سے متصل سنگھو سرحد پر گذشتہ دو ہفتوں سے جاری کسانوں کے دھرنے کے شرکا کے لیے پنجاب کے مسلمانوں کی تنظیم ’مسلم فیڈریشن آف پنجاب‘ نے 24 گھنٹے لنگر کا انتظام کر رکھا ہے۔
سنگھو سرحد پر جاری کسانوں کے دھرنے کے اکثر شرکا پنجاب اور ہریانہ سے آئے ہیں اور وہ سکھ مذہب کے پیروکار ہیں۔ انہیں دراصل نئی دہلی جانا تھا اور وہاں تاریخی ’رام لیلا میدان‘ میں اپنا احتجاج درج کرانا تھا لیکن سکیورٹی فورسز کے روکے جانے کے بعد وہ یہیں دھرنے پر بیٹھ گئے۔
بھارت میں کسان ہندو قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی حکومت کے منظور کردہ تین متنازع زرعی قوانین کی واپسی، اناج منڈیوں کو ختم نہ کرنے، اناج کی کم سے کم سپورٹ پرائس یا ایم ایس پی کو برقرار رکھنے اور کسانوں کے قرضے معاف کرنے کے مطالبات کو لے کر برسر احتجاج ہیں۔
اگرچہ وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت اور کسانوں کی تنظیموں کے نمائندوں کے درمیان اب تک مذاکرات کے متعدد ادوار ہوئے ہیں تاہم کوئی بڑی پیش رفت سامنے نہیں آئی۔ سنگھو سرحد پر کسانوں کے لیے لنگر چلانے والی مسلم تنظیم کے سربراہ ایڈووکیٹ مبین فاروقی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’مسلم فیڈریشن آف پنجاب‘ کی ٹیم کسانوں کی دن رات خدمت میں مصروف ہے۔
مبین نے کہا: ’ہم پنجاب کے ملیر کوٹلہ سے یہاں آئے ہیں اور پہلے دن سے کسان آندولن کا حصہ بنے ہوئے ہیں۔ ہماری ٹیم 25 افراد پر مشتمل ہے۔ ہم نے یہاں اپنے کسان بھائیوں کے لیے لنگر لگایا ہے اور ہم ان کو میٹھے و نمکین چاول اور کھانے کی دوسری چیزیں کھلا رہے ہیں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے کہا: ’ہم بہت خوش نصیب ہیں کہ ہمیں ان لوگوں کی خدمت کرنے کا موقع ملا جو پوری دنیا میں رہنے والے لوگوں کے پیٹ کا خیال رکھتے ہیں۔ یہ موقع ہمیں اللہ تعالیٰ نے دیا ہے۔ ہم لگاتار لگے ہوئے ہیں۔ ہم سب اپنے کسان بھائیوں کی خدمت کے جذبے کے تحت یہاں آئے ہیں۔‘
انہوں نے بتایا کہ یہاں پر دہلی اور ہریانہ سے تعلق رکھنے والے مسلمان بھی اس لنگر کے ساتھ جڑ گئے ہیں۔ ’ہمیں اپنے ان کسان بھائیوں کی خدمت کرتے ہوئے بہت خوشی ہو رہی ہے۔ ہمارے ساتھ یہاں دہلی اور ہریانہ کے مسلمان بھی جڑ چکے ہیں۔ پنجاب، ہریانہ، راجستھان، مہاراشٹرا، مدھیہ پردیش اور اتر پردیش جیسی جگہوں سے ہمارے کسان بھائی یہاں آئے ہیں۔ ہم ان سب کی لگاتار خدمت کر رہے ہیں۔‘
انہوں نے حکومت سے درخواست کی کہ وہ کسانوں کے خلاف پاس کیے گئے تین قوانین کو منسوخ کرے۔ ’اگر آپ نے کسانوں کو ہمدردی دکھانی ہے تو ان کا قرضہ معاف کیا جائے اور ایم ایس پی کو برقرار رکھنے کے لیے اس پر قانون وضع کیا جائے نیز ان کی تمام جائز مانگوں کو فوراً تسلیم کیا جائے۔‘
ریاست مدھیہ پردیش سے تعلق رکھنے والے سماجی کارکن سنیل گوپال نے بتایا کہ انہیں سنگھو سرحد پر مسلمانوں کا لنگر دیکھ کر بہت خوشی ہوئی۔
انہوں نے کہا کہ کسان یہاں پر ڈٹے ہوئے ہیں اور مسلمانوں کے اس اقدام نے اس تحریک کو مزید مضبوطی بخشی ہے۔ ’امید ہے کہ اس میٹھے چاول کی مٹھاس ہم سب کے رشتوں میں بھی گھل جائے گی۔ ہم سب کا رشتہ اتنا میٹھا ہو جائے کہ کوئی بھی حکمران غلط بات کہہ کر ہمیں توڑ نہ سکیں۔‘
ادھر بھارت میں سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو وائرل ہوئی ہے جس میں کسان تحریک کا حصہ بننے والے مسلمان سڑک پر نماز ادا کر رہے ہیں جبکہ سکھ نوجوان نمازیوں کی حفاظت پر مامور نظر آ رہے ہیں۔
وائرل ویڈیو کو بھارت کی معروف صحافی رانا ایوب نے ٹوئٹر پر شیئر کرتے ہوئے لکھا: ’اِس نے مجھے جذباتی کر دیا۔ کسان احتجاج میں سکھ برادری مسلمانوں کے نماز ادا کرنے کے دوران ان سے یکجہتی کا اظہار کرتے ہوئے کھڑے ہوئے ہیں۔‘
This made me emotional. Sikh brothers standing in solidarity with Muslims while they offer namaz at the farmers protest. pic.twitter.com/1QqC03vKR0
— Rana Ayyub (@RanaAyyub) December 7, 2020