بھارت میں کسانوں کا احتجاج، پاکستانی کاشتکار بھی دھرنے کے لیے تیار

ایک طرف بھارت میں کسانوں نے حکومت پر دباؤ ڈالنے کے لیے دارالحکومت دہلی کا گھیراؤ کر رکھا ہے تو دوسری جانب مطالبات تسلیم نہ ہونے پاکستانی کاشتکار بھی پھر سے اسلام آباد دھرنے کی حکمت عملی تیار کر رہے ہیں۔

بھارتی کاشتکاروں نے مودی سرکار کے نئے فیصلوں کے خلاف کئی ماہ سے احتجاج شروع کر رکھا ہے (تصاویر: خوشال لالی)

پاکستان اور بھارت دونوں ہی ممالک میں بیشتر آبادی زراعت کے شعبہ سے وابستہ ہے لیکن رواں سال دونوں ممالک میں کاشتکار خاصے مشکلات سے دوچار دکھائی دیے۔

بھارتی کاشتکاروں نے مودی سرکار کے نئے فیصلوں کے خلاف کئی ماہ سے احتجاج شروع کر رکھا ہے اور اب مختلف ریاستوں سے بڑی تعداد میں ٹریکٹر ٹرالیوں سمیت روکاوٹیں ہٹاتے دہلی کے قریب پہنچ کر بھارتی دارالحکومت کا گھراؤ کر لیا ہے۔

اسی طرح کچھ عرصہ قبل پاکستانی کاشتکاروں نے بھی پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں راستے روک کر احتجاج کیا جن پر پولیس کی جانب سے تشدد بھی کیا گیا اور انہیں دو دن کے اندر زبردستی منتشر کیا۔ اس دوران دو کاشتکاروں کی ہلاکت بھی ہوئی تھی۔

مطالبات تسلیم نہ ہونے پر ایک بار پھر کاشتکار اسلام آباد دھرنے کی حکمت عملی تیار کر رہے ہیں۔

بھارتی اور پاکستانی کاشتکاروں کے احتجاج میں مماثلت

بھارت کے مقامی صحافی خوشال لالی نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ جب سے مودی سرکار نے زراعت سے متعلق تین آرڈیننس پاس کیے ہیں کسانوں کا احتجاج جاری ہے۔ اس سال مارچ سے شروع ہونے والا یہ احتجاج پہلے مختلف ریاستوں میں تو جاری تھا لیکن کرونا لاک ڈاؤن کے باعث کسی ایک جگہ پر نہ ہو سکا۔

’مگر پھر کاشتکاروں کی تنظیموں نے متحد ہوکر دہلی پہنچنے کا اعلان کیا اور 25 نومبر کو ٹریکٹر ٹرالیوں سمیت کسان جن میں خواتین بھی شامل ہیں دہلی کے قریب پہنچ گئے۔‘

خوشال لالی نے بتایا کہ ان پر آنسو گیس کی شیلنگ، لاٹھی چارج اور ڈمپر کھڑے کر کے راستہ روکا گیا مگر پھر بھی مظاہرین منتشر نہ ہوئے۔

ان کے مطابق لاکھوں کاشتکاروں نے 25 نومبر سے تین اطراف سے دہلی شہر کے راستوں کو بند کر کے گھیراؤ کر رکھا ہے اور مطالبات تسلیم ہونے تک دھرنا جاری رکھنے کا اعلان بھی کر رکھا ہے۔

اسی طرح گذشتہ ماہ پاکستانی کاشتکاروں نے بھی مکمل حکمت عملی کے ساتھ جمع ہوکر لانگ مارچ کا اعلان کیاتھا۔

پاکستانی کاشتکاروں نے لاہور میں ٹھوکر نیاز بیگ اور مال روڑ بند کر کے دھرنا دیا تو پولیس نے انہیں ہٹانے کے لیے آنسوگیس، لاٹھی چارج اور واٹر کینن کا استعمال کیا تھا۔ اسی دوران دو کاشتکاروں کو طبیعت خراب ہونے پر انہیں ہسپتال لے جایاگیا جہاں وہ دم توڑ گئے۔

چیئرمین متحدہ کسان اتحاد پاکستان چودھری انور نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہاکہ پاکستان کے کاشتکار بھی بھارتی کسانوں کی طرح مشکلات سے دوچار ہیں۔

’ہم پہلے تیاری نہ ہونے کے باعث پولیس تشدد کاسامنا نہ کر سکے لیکن اب پیر کے روز مرکزی مجلس عاملہ کااجلاس طلب کر رکھا ہے۔ اس بار بھی پہلے کی طرح لاہور سے اسلام آباد جائیں گے اور دھرنا دیں گے۔ اگر روکنے کی کوشش کی گئی تو ہم اسلام آباد کے راستے روکیں گے۔ کیونکہ ہمارے مطالبات پورے نہیں ہوئے۔‘

دونوں ملکوں کے کاشتکاروں کے مسائل

بھارتی کاشتکاروں کے مسائل بھی پاکستانی کسانوں سے ملتے جلتے ہی ہیں۔ بھارتی صحافی خوشال لالی نے بتاتے ہیں کہ بھارتی حکومت نے تین ایسے زرعی قانون پاس کیے جو کسانوں نے مسترد کردیے۔

’کسانوں کے مطابق جو حکومت کی جانب سے دو فصلوں گندم اور چونا کی کم از کم امدادی قیمت مقرر کی گئی ہے وہ ختم کر کے بھارتی سرمایہ دار گروپوں انبانی اور اڈانی کو فائدہ پہنچانے کی کوشش کیاجا رہی ہے۔‘

ان کے مطابق کسانوں سے زراعت کو ان کارپوریٹ گروپوں کے حوالے کرنے کے اقدامات کیے جا رہے ہیں۔

کسانوں نے ان قوانین اور فصلوں کی قیمتوں میں کمی پر احتجاج شروع کیا جو اب تک جاری ہے کیونکہ حکومت یہ زرعی قوانین واپس لینے کو تیار نہیں ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ایسے ہی کسان اتحاد پاکستان کے چیئرمین بھی کہتے ہیں کہ حکومت کسانوں سے سستا گنا اور گندم خرید کر صنعتکاروں کو مہنگی چینی اور آٹا فروخت کرنے کی اجازت دیتی ہے۔

’ہم سے گنا 190 روپے فی من خرید کر چینی سو روپے سے بھی زائد فی کلو میں فروخت کی اجازت دی گئی۔ اس سال گنے کی قیمت خرید کے مطابق چینی 70روپے فی کلو میں فروخت ہونی چاہے تھی، اگر سو روپے فی کلو تک چینی فروخت کرنی تھی تو شوگر ملز تین سو روپے فی من گنا خریدتے۔ اس سال شوگر ملز مالکان کو اربوں کا فائدہ پہنچایاگیا ہے۔‘

وہ بتاتے ہیں کہ گندم 14سو روپے فی من خرید کر فلور ملز کو 80 روپے فی کلو تک آٹا فروخت کرنے کی اجازت دی گئی۔

چودھری انور کے مطابق حکومت شوگر اور فلور ملز مافیا کو نوازنے کے لیے کسانوں کو بدحال کر رہی ہے۔

’ہمیں فائدہ پہنچانے کی بجائے چند سرمایہ داروں کو دولت بنانے کا موقع فراہم کیاگیا ہے۔‘

انہوں نے اعلان کیا کہ ہم اس ’غیر منصفانہ‘ پالیسی کے خلاف دوبارہ لانگ مارچ کی تیاری کر رہے ہیں۔

زیادہ پڑھی جانے والی معیشت