حزب اللہ کے رکن کو رفیق حریری قتل کیس میں عمر قید کی سزا

سلیم ایاش کو تاحال گرفتار نہیں کیا جاسکا، انہیں فروری 2005 میں بیروت میں خودکش ٹرک بم دھماکے کا شریک مجرم قرار دیا گیا ہے، جس کے نتیجے میں سابق لبنانی وزیراعظم رفیق حریری سمیت 21 افراد ہلاک اور 226 زخمی ہوئے تھے۔

6 فروری 2015 کی اس تصویر میں ایک خاتون   لبنان کے دارالحکومت بیروت میں ایک دیوار پر بنائے گئے پوسٹر کے سامنے سے گزر رہی ہیں، جس پر  مقتول وزیراعظم رفیق حریری کا پوسٹر بنا ہوا ہے (اے ایف پی)

اقوام متحدہ کے حمایت یافتہ ٹریبونل نے لبنانی عسکریت پسند گروپ حزب اللہ کے ایک رکن کو 2005 میں لبنان کے سابق وزیر اعظم رفیق حریری کے قتل میں ملوث ہونے کے الزام میں جمعے کو عمر قید کی سزا سنا دی۔

مدعا علیہ سلیم ایاش کو ابھی تک گرفتار نہیں کیا جا سکا اور وہ لبنان کے لیے بنائے جانے والے اس خصوصی ٹریبونل کے سامنے سزا سنانے کے موقع پر عدالت میں موجود نہیں تھے۔

خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کے مطابق ٹریبونل نے 14 فروری 2005 کو بیروت کے ساحل کے قریب ہونے والے خودکش ٹرک بم دھماکے سے منسلک پانچ الزامات میں ایاش کو شریک مجرم قرار دیا تھا۔ اس زور دار دھماکے میں رفیق حریری سمیت 21 افراد ہلاک اور 226 زخمی ہوئے تھے۔

ٹریبونل کے جج ڈیوڈ ری کا کہنا تھا کہ 'ایاش نے دہشت گردی کے ایک ایسے واقعے میں کردار ادا کیا جو قتل عام تھا۔ اس حملے میں ان کا کردار بہت اہم تھا۔'

ان کا مزید کہنا تھا کہ ٹرائل چیمبر مطمئن ہے کہ انہیں عمر قید کی پانچ دفعات میں سے ہر ایک کے لیے بیک وقت زیادہ سے زیادہ سزا سنائی جائے۔'

عدالت نے ایاش کے لیے نئے بین الاقوامی وارنٹ گرفتاری بھی جاری کر دیے اور پراسیکیوٹر کو اختیار دیا کہ وہ بین الاقوامی قانون نافذ کرنے والے ادارے انٹرپول سے اس کے رکن ممالک کو ان کی گرفتاری کے لیے 'ریڈ نوٹس' جاری کرنے کا مطالبہ کرے۔

اگست میں حزب اللہ کے تین دیگر ارکان کو اس قتل میں ملوث ہونے کے تمام الزامات سے بری کر دیا گیا تھا۔ قتل کی اس واردات سے پورا مشرق وسطیٰ ہل کر رہ گیا تھا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

کرونا (کورونا) وائرس کی بندشوں کے باعث جمعے کے دن کمرہ عدالت میں صرف دو ججز اور عدالتی اہلکاروں کی ایک چھوٹی ٹیم موجود تھی جبکہ دیگر ججز اور وکلا دور سے سماعت میں شریک تھے۔

اگست میں ٹریبونل نے فیصلہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ حزب اللہ کی قیادت اور شام اس حملے میں ملوث تھے۔ یہ واقعہ اس وقت پیش آیا تھا جب حریری اور ان کے سیاسی اتحادی 'لبنان سے شامی افواج کے مکمل اور فوری انخلا' کے مطالبے پر بات چیت کر رہے تھے۔

مقدمے کی سماعت کرنے والے ججوں میں سے ایک جج جینیٹ نوزوردی نے کہا کہ اس قتل میں 'شاید ایک ریاستی عنصر ہی شامل ہونا تھا' اور یہ کہ جس ریاست کو 'حریری کے قتل سے زیادہ تر فائدہ ملنا تھا، وہ شام تھا۔'

جج کا یہ بھی کہنا تھا کہ حزب اللہ کی تنظیم ایاش کو انصاف سے بچاتی رہی ہے اور اس کے رہنما اپنی تقریروں میں کسی بھی مشتبہ افراد کی گرفتاری کی کوششوں کے خلاف انتباہ جاری کر چکے ہیں۔

حزب اللہ کے بیانات کے حوالے سے جج ڈیوڈ ری کا کہنا تھا: 'میری نظر میں یہ واضح ہے ان تمام سالوں سے کون ایاش کو انصاف سے بچاتا رہا ہے۔'

انہوں نے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل سے لبنان کے ٹریبونل کی ساکھ اور عدالتی حیثیت کی بحالی کے لیے کردار ادا کرنے کا مطالبہ بھی کیا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا