جلسوں میں شرکا کی گنتی کا سائنسی طریقہ کیا ہے؟

انڈپینڈنٹ اردو نے کچھ تحقیقی مقالوں سے عالمی طریقہ ہائے کار جاننے اور ماہرین سے پوچھنے کی کوشش کی ہے تاکہ معلوم ہو سکے کہ کسی بھی مجمعے میں لوگوں کی گنتی کرنے کا سائنسی طریقہ کیا ہے۔

13 دسمبر کو  لاہور میں پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے جلسے میں شریک افراد (تصویر: اے ایف پی)

یہ 1960 کی دہائی تھی اور امریکہ کی یونیورسٹی آف کیلیفورنیا برکلے میں شعبہ صحافت سے وابستہ پروفیسر ہربرٹ جیکبس اپنے دفتر کی کھڑکی سے باہر کیمپس کے ایک پلازے کا نظارہ دیکھ رہے تھے۔

اس پلازے کے ساتھ موجود ایک چوک 60 کی دہائی میں جلسے جلوسوں، انسانی حقوق کی ریلیوں اور جنگوں کے خلاف مظاہروں کا مشہور مرکز رہا ہے۔

جس جگہ پر یہ جلسے جلوس ہوا کرتے تھے، اسے باقاعدہ طور پر بلاکس میں تقسیم کیا گیا تھا جہاں  لوگ آکر اکٹھے ہوتے تھے اور اپنے حقوق کے  لیے آواز بلند کرتے تھے۔

جیکبس دفتر میں بیٹھے باہر کا نظارہ کر رہے تھے کہ اسی دوران ویتنام جنگ کے خلاف مظاہرے میں شریک چند طلبہ کو دیکھ کر پروفیسر کو خیال آیا کہ اس مظاہرے میں مظاہرین کی تعداد کیا ہو سکتی ہے اور انہوں نے حساب لگانا شروع کردیا۔

اسی سوچ کو آگے لے جا کر جیکبس نے کسی بھی مجمعے یا جلسے جلوس میں شریک لوگوں کی گنتی کے لیے ایک آسان طریقہ متعارف  کروایا، جو آج بھی استعمال کیا جاتا ہے اور دنیا بھر میں مظاہروں اور جلسوں میں لوگوں کی گنتی کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔

پاکستان میں بھی ہر جلسے، مظاہرے یا ریلی کے بعد مرکزی میڈیا اور سوشل میڈیا پر یہی بحث زور پکڑتی ہے کہ فلاں جلسے میں کتنے آدمی تھے ۔

اسی گنتی کو بنیاد بنا کر ایک سیاسی پارٹی دوسرے کو نیچا دکھانے  کی کوشش میں لگی رہتی ہے اور یہی کہا جاتا ہے کہ چونکہ فلاں جلسے میں لوگ کم تھے تو اس پارٹی کو عوام کی حمایت حاصل نہیں ہے۔

یہی بحث ہم نے پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے جلسوں میں  بھی دیکھی۔ لاہور کے مینار پاکستان سے متصل گریٹر اقبال پارک ہو یا پشاور کے رنگ روڈ پر جلسہ ہو، حکومتی نمائندوں کی طرف سے ان جلسوں میں کم لوگوں کی شرکت کا دعویٰ کیا جاتا ہے جب کہ اس تحریک سے جڑی سیاسی جماعتیں اس میں لاکھوں افراد کی شرکت کے دعوے کرتی نظر آتی ہیں۔

اسی طرح میڈیا چینلز پر بھی یہی بحث ہوتی ہے۔ حکومتی جماعت کے حمایت یافتہ چینلز پی ڈی ایم کے جلسوں میں کم لوگوں کی شرکت کا دعوٰی کرتے ہیں جب کہ وہ چینلز جن کا  جھکاؤ اپوزیشن کی طرف ہو، ان کی طرف  سے جلسوں میں زیادہ تعداد میں لوگوں کی شرکت کا دعویٰ کیا جاتا ہے۔

اسی طرح ایک گنتی پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کی طرف سے بھی سامنے آتی ہے اور اس کو بھی ٹی وی پر دکھایا جاتا ہے۔

انڈپینڈنٹ اردو نے کچھ تحقیقی مقالوں سے عالمی طریقہ ہائے کار جاننے اور ماہرین سے پوچھنے کی کوشش کی ہے تاکہ معلوم ہو سکے کہ کسی بھی مجمعے میں لوگوں کی گنتی کرنے کا سائنسی طریقہ کیا ہے۔

جیکبس طریقہ کیا ہے؟

ہربرٹ جیکبس کی جانب سے متعارف کیا گیا طریقہ دنیا بھر میں کسی نہ کسی شکل میں استعمال کیا جاتا ہے تاہم ٹیکنالوجی میں جدت کی وجہ سے اس کے استعمال کے طریقہ کار میں تبدیلی ضرور آئی ہے۔

جیکبس کے مطابق کسی بھی مجمعے میں لوگوں کی تعداد سٹیج کے قریب زیادہ ہوتی ہے اور جوں ہی آپ سٹیج سے پیچھے آئیں گے تو لوگوں کی تعداد کم ہونی شروع ہو جاتی ہے۔ اس طریقے کی رو سے جس جگہ پر جلسہ منقعد کیا جاتا ہے، اس کا رقبہ جاننا ضروری ہے اور اسی رقبے کے مطابق لوگوں کی گنتی کی جاتی ہے۔

جیکبس طریقے کے مطابق اگر مجمعے میں  بظاہر لوگ کم نظر آتے ہیں تو وہاں گنتی کا حساب اس طرح کریں کہ فی 10 مربع فٹ میں ایک بندے کا حساب لگائیں گے اور اگر مجمعے میں بظاہر لوگ زیادہ اور ایک دوسرے کے بہت قریب نظر آئیں تو اس صورت میں تقریباً تین مربع فٹ میں ایک بندے کا حساب لگایا جائے گا۔

تاہم جیکبس نے اس کا ایک اوسط نکال دیا ہے، جس میں ہر پانچ مربع فٹ جگہ میں ایک بندے کا حساب لگایا جائے گا۔

جلسہ گاہ کو بلاکس میں تقسیم کریں گے اور ہر ایک بلاک میں موجود لوگوں کی مربع فٹ کے حساب سے گنتی کریں گے۔

اسی طریقے کوآسان بنانے کے لیے ہم لاہور میں حالیہ جلسے کی  مثال لیتے ہیں۔

مینار پاکستان میں واقع گریٹر اقبال پارک کا کل رقبہ تقریباً 325 ایکڑ ہے۔

لاہور میں انڈپینڈنٹ اردو کے نامہ نگار ارشد چوہدری کے مطابق جلسے جلوسوں کے لیے پارک کا ایک خاص حصہ مختص کیا گیا ہے جہاں پر اس سے پہلے بھی مختلف سیاسی جماعتوں کی جانب سے اجتماعات  کیے گئے ہیں۔

پی ڈی ایم کا جلسہ جس جگہ پر کیا گیا تھا اس کا رقبہ تقریباً 55 ایکڑ اراضی پر مشتمل تھا۔

اگر ہم آسانی کے لیے 55 ایکڑ کو مربع فٹ میں تبدیل کریں تو یہ تقریباً 23 لاکھ 95 ہزار آٹھ سو مربع فٹ بنتا ہے۔

اب اگر ہم جیکبس طریقے کو سامنے رکھتے ہوئے پانچ سکوائر فٹ میں ایک بندے کی گنجائش کا اندازہ لگائیں تو 23 لاکھ سے زیادہ سکوائر فٹ کی اس جلسہ گاہ میں تقریباً چار لاکھ 80 ہزار لوگوں کے اکٹھا ہونے کی گنجائش موجود تھی۔

اب اسی طریقے سے آسانی سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ کسی بھی جلسے کے دوران اگر جلسہ گاہ پوری بھری ہوئی تھی تو وہاں پر چار لاکھ سے زائد لوگ موجود تھے اور اگر آدھی بھری تھی تو دو لاکھ سے زائد لوگ موجود تھے۔

جیکبس طریقے کے بارے میں اسلامیہ کالج یونیوسٹی پشاور میں شعبہ شماریات کے پروفیسر سریر بادشاہ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ یہ طریقہ بہت پہلے سے انسان کے لاشعور میں موجود تھا تاہم جیکبس نے اس کو ایک باقاعدہ سائنسی شکل دے دی ہے اور اس طریقہ کار کو پوری دنیا میں استعمال کیا جاتا ہے۔

پروفیسر سریر نے بتایا کہ اس طریقے میں اب مزید جدت آگئی ہے اور اب  مجمعوں کی ہائی ریزولوشن تصاویر اور ویڈیوز بنا کر انہی تصاویر کا تجزیہ کیا جاتا ہے اور اس تصویر کو بلاکس میں تقسیم کرکے اس سے مجمعے میں موجود لوگوں کی تعداد کا اندازہ لگایا جاتا ہے۔

سریر نے بتایا: 'ڈرون سینسر ٹیکنالوجی بھی اب مجمعے میں لوگوں کی گنتی کے لیے استعمال کی جاتی ہے۔ اس ڈرون میں سنسر لگے ہوئے ہوتے ہیں جس سے ایک مخصوس جگہ پر موجود لوگ سینسر کے ذریعے گنے جاتے ہیں اور اس کو بعد میں مجموعی رقبے سے ضرب دیا جاتا ہے۔'

'رے واٹسن' ہانگ کانگ یونیورسٹی میں پروفیسر ہیں جبکہ 'پال یپ' یونیورسٹی آف ملبورن میں پروفیسر ہیں۔ ان دونو ں پروفیسرز نے جلسے جلوسوں میں لوگوں کی تعداد کی گنتی پر تحقیق کی ہے جو رائل سٹیٹیسٹیکل سوسائٹی کے جریدے میں شائع ہوئی ہے۔ 

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس تحقیق کے مطابق مجمعوں میں لوگوں کی تعداد کی گنتی تقریباً دو ہزار سال سے ایک مسئلہ رہا ہے اور یہ مسئلہ سیاست اور پبلک ریلیشن کے ساتھ صدیوں سے جڑا ہوا ہے۔

اس تحقیق کے مطابق مجمعے دو قسم کے ہوتے ہیں۔ ایک تو وہ جلسہ جس میں لوگ ایک جگہ اکٹھے ہوتے ہیں اور دوسری قسم ریلی ہوتی ہے جس میں لوگ مارچ کرتے نظر آتے ہیں۔

جیکبس طریقے پر ان دونوں پروفیسرز نے اپنے تحقیقی مقالے میں لکھا ہے کہ یہ طریقہ تب بہت حد تک درست  اندازہ لگا سکتا ہے جب جلسہ گاہ کے درمیان کوئی رکاوٹ موجود نہ ہو اور وہ ایک کھلی جگہ ہو تاہم جب جلسہ گاہ  ریگولر نہ ہو تو وہاں غلطی کی گنجائش موجود ہوتی ہے۔

دونوں پروفیسروں کے مقالے کے مطابق اس مسئلے کو حل کرنے کے  لیے 'پکسل بیسڈ ' اپروچ کو استعمال کیا جا سکتا ہے۔

اس طریقے میں کسی بھی جلسے میں مجمعے کی تصویر لے کر اس کے پکسلز کو زوم کرکے وہاں شریک لوگوں کو بلاکس میں تقسیم کریں اور اس کو کل رقبے سے ضرب دیں، اس طریقہ کار میں 10 فیصد تک غلطی کی گنجائش موجود ہے۔

ریلی میں گنتی کیسے کی جاتی ہے ؟

اس تحقیقی مقالے میں محقیقن کی جانب سے ریلی میں گنتی کا جو طریقہ کار بتایا گیا ہے، اس کے مطابق ریلی میں لوگ  ایک مجمعے کی صورت میں نہیں ہوتے بلکہ کچھ لوگ آگے اور کچھ پیچھے جب کہ کچھ ریلی سے باہر کو نکلے ہوئے اور کچھ اندر ہوتے ہیں، اس لیے یہاں پر تصویر لے کر جیکبس طریقہ کار سے اندازہ مشکل ہوجاتا ہے۔

اسی مشکل کو حل کرنے کے لیے مقالے میں ایک اور طریقے پر بات کی گئی ہے۔ اس طریقہ کار میں ریلی کے راستے میں انسپیشکن پوائنٹ لگایا جاتا ہے اور ایک  مخصوص وقت میں اسی پوائنٹ سے گزرنے والے لوگوں کی تعداد معلوم کی جاتی ہے۔

آسانی کے لیے اس کی مثال یہ ہو سکتی ہے کہ اسلام آباد کی شاہراہ دستور پر کوئی ریلی منعقد کی گئی ہے۔ اب شاہراہ دستور کے ایک سرے سے لوگ روانہ ہوتے ہیں اور اسی شاہراہ کے عین وسط میں  گنتی کی غرض سے ایک پوائنٹ مختص کرتے ہوئے اسی پوائنٹ سے گزرنے والے افراد کی گنتی ایک خاص وقت میں کرتے ہیں تو آپ ریلی میں لوگوں کی تعداد نکال سکتے ہیں۔

اس طریقہ کار میں گنتی کرنے والی مشین بھی استعمال کی جا سکتی ہے تاہم مقالے کے مطابق اس تکنیک میں بھی غلطی کی گنجائش موجود ہے کیونکہ ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ گنتی مشین پہنچنے سے پہلے کچھ لوگ ریلی سے نکل جائیں یا گنتی مشین سے گزرنے کے بعد نئے لوگ ریلی میں شامل ہوجائیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان