سینیٹ الیکشن: 'شو آف ہینڈ کے ذریعے ووٹنگ آئین کے خلاف'

آئینی و قانونی ماہرین نے سینیٹ انتخابات میں شو آف ہینڈ کے ذریعے ووٹنگ کے طریقہ کار کو آئین پاکستان کی روح کے مخالف قرار دیتے ہوئے اس میں کئی قباحتوں کی نشاندہی کی ہے۔

وفاقی کابینہ نے منگل کے اجلاس میں سینیٹ انتخابات فروری میں کروانے کا فیصلہ بھی کیا۔ (تصویر:سینیٹ آف پاکستان آفیشل فیس بک پیج)

پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے آئندہ سال مارچ میں ہونے والے سینیٹ کے انتخابات خفیہ رائے شماری کی بجائے شو آف ہینڈ کے ذریعے کروانے کے لیے سپریم کورٹ سے رہنمائی حاصل کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

وفاقی کابینہ نے منگل کے اجلاس میں سینیٹ انتخابات فروری میں کروانے کا فیصلہ بھی کیا۔

یاد رہے کہ سینیٹ کے آدھے اراکین 11 مارچ 2021 کو سبکدوش ہو رہے ہیں اور اس کے نتیجے میں خالی ہونے والی نشستوں پر انتخابات ہونا ہیں۔ 

تاہم قانونی ماہرین نے سینیٹ انتخابات میں شو آف ہینڈ کے ذریعے ووٹنگ کے طریقہ کار کو آئین پاکستان کی روح کے مخالف قرار دیتے ہوئے اس میں کئی قباحتوں کی نشاندہی کی۔

آئینی ماہر اور سابق چئیرمین سینیٹ میاں رضا ربانی کہتے ہیں کہ 'معلوم نہیں حکومت کو یہ سب کچھ کرنے کے بارے میں کون بتا رہا ہے کیونکہ ایسا نہیں کیا جا سکتا۔'

سابق سیکرٹری الیکشن کمیشن آف پاکستان کنور دلشاد نے بھی اسی طرح کی رائے کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ حکومت کو اس کے آئینی ماہرین نے غلط راستہ دکھایا ہے۔ ان کا کہنا تھا: 'خفیہ رائے شماری کی بجائے شو آف ہینڈ کے ذریعہ سینیٹ  انتخابات کروانے کا اب وقت نہیں رہا۔'

یاد رہے کہ آئین پاکستان کے آرٹیکل 226 کے مطابق: 'آئین کے تحت ہونے والے تمام انتخابات، ماسوائے وزیر اعظم اور وزیر اعلی کے انتخابات کے، خفیہ رائے دہی کے ذریعے منعقد ہوں گے۔'

دوسری طرف پاکستان میں انتخابات کروانے سے متعلق رائج قانون الیکشنز ایکٹ 2017 کی شق 6 میں بھی پارلیمان کے ایوان بالا کے چناؤ کے لیےخفیہ رائے شماری (سیکریٹ بیلٹ) کا ذکر ہے۔

حق نمائندگی

انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے میاں رضا ربانی کا کہنا تھا کہ 1973 کا آئین بنانے والوں نے چھوٹے صوبوں اور چھوٹی جماعتوں کو ایوان بالا میں نمائندگی دینے کے لیے سینیٹ کے انتخابات کا مخصوص طریقہ متعارف کروایا تھا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اپنی بات کی وضاحت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ دوسرے کسی طریقے سے چھوٹی جماعتوں اور صوبوں کو سینیٹ میں نمائندگی نہیں مل سکتی۔

'اسی مخصوص طریقے کی وجہ سے محض تین چار صوبائی اراکین والی جماعت بھی سینیٹ میں پہنچ سکتی ہے۔'

واضح رہے کہ وفاقی کابینہ نے ہارس ٹریڈنگ کی حوصلہ شکنی کو شو آف ہینڈ کے ذریعے سینیٹ انتخابات کروانے کی وجہ قرار دیا ہے۔ 

وفاقی وزیر اطلاعات شبلی فراز نے کابینہ کے اجلاس کے بعد میڈیا بریفنگ میں کہا کہ سینیٹ انتخابات میں وفاداریوں کی خریدوفروخت کے الزامات ہمیشہ لگتے رہے ہیں اور اسی لیے حکومت آئندہ سینیٹ انتخابات شو آف ہینڈ کے طریقے سے کروانے کی خواہش رکھتی ہے۔

میاں رضا ربانی نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں اس حوالے سے کہا کہ سینیٹ انتخابات میں شفافیت کا سوال اپنی جگہ موجود ہے لیکن اسے بہانہ بنا کر چھوٹے صوبوں اور جماعتوں کی نمائندگی کے حق کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ 

آئینی ترمیم

آئین پاکستان کے آرٹیکل 186 کے تحت صدر مملکت کسی عوامی اہمیت کے مسئلے پر رائے حاصل کرنے کے لیے سپریم کورٹ سے رجوع کر سکتے ہیں۔

میاں رضا ربانی نے کہا کہ صدارتی ریفرنس کی صورت میں اعلیٰ عدلیہ جو بھی فیصلہ دے، رائے شماری کا طریقہ کار بدلنے کے لیے آئین میں ترامیم کرنا ہو گی جو پارلیمنٹ کے علاوہ کسی دوسری جگہ ممکن نہیں ہیں۔

ان کا کہنا تھا: 'عدالت کی رائے یا فیصلے کے نتیجے میں آئین میں ترمیم نہیں ہوتی بلکہ ہر صورت میں آئین میں تبدیلی پارلیمان نے ہی کرنا ہوتی ہے۔'

دوسری جانب کنور دلشاد کا اس سلسلے میں کہنا تھا کہ سپریم کورٹ صرف رہنمائی کر سکتی ہے۔ 'اگر عدالت کہہ بھی دے کہ ترمیم کی جائے اور حزب اختلاف کی جماعتیں راضی نہ ہوں تو ترمیم ممکن نہیں ہو گی۔'

انہوں نے مزید کہا کہ 'حکومت کو یہ کام بہت پہلے کر لینا چاہیے تھا، جب ایوان میں حکومتی اور اپوزیشن بنچز کے درمیان تعلق نسبتا بہتر تھا۔ اس وقت تو ایسی کوئی ترمیم اتفاق رائے سے منظور کروانا بالکل بھی ممکن نہیں ہو گا۔'

سیاسی مسئلہ

سندھ کے وزیر اطلاعات مرتضیٰ وہاب کا کہنا تھا کہ سینیٹ انتخابات میں ووٹنگ کا طریقہ کار ایک سیاسی مسئلہ ہے اور اسے سپریم کورٹ کے پاس لے جانے کی وجہ سمجھ نہیں آتی۔

میاں رضا ربانی کی بھی رائے تھی کہ یہ ایک سیاسی اور پارلیمانی مسئلہ ہے اور ایسے مسائل مناسب فورمز پر ہی زیر بحث آنے چاہییں۔

بقول رضا ربانی: 'آج یہ سوال لے کر آپ سپریم کورٹ کے پاس جاتے ہیں تو کل عدالت ایسی ہی دوسری چیزوں پر از خود نوٹس لے سکتی ہے، یہ تو اپنی داڑھی خود دوسروں کے ہاتھ میں دینے کے مترادف ہے۔'

فروری میں سینیٹ انتخابات

فروری میں سینیٹ انتخابات کروانے سے متعلق وفاقی کابینہ کے فیصلے پر تبصرہ کرتے ہوئے کنور دلشاد نے کہا کہ کابینہ کو یہ فیصلہ کرنے کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔

ان کا کہنا تھا کہ سینیٹ کے انتخابات تو بہرحال فروری میں ہی ہوں گے اور اس کا فیصلہ اور اس پر عمل الیکشن کمیشن آف پاکستان نے کرنا ہے نہ کہ وفاقی حکومت نے۔

سابق سیکرٹری الیکشن کمیشن نے مزید کہا کہ نئے اراکین کا انتخاب فروری میں ہی ہونا بنتا ہے تاکہ 11 مارچ کو جب آدھے سینیٹرز سبکدوش ہو جائیں تو ان کے متبادل موجود ہوں اور حلف اٹھا سکیں۔

انہوں نے کہا کہ انتخابات کے عمل میں کم از کم ایک مہینہ درکار ہوتا ہے جس کا ذکر متعلقہ قوانین میں بھی موجود ہے۔

مرتضیٰ وہاب کا بھی کہنا تھا کہ 'سینیٹ انتخابات کی تاریخ کا فیصلہ اور اعلان الیکشن کمیشن نے کرنا ہوتا ہے۔ نہیں معلوم کہ وفاقی حکومت (کابینہ) ایسا فیصلہ کیوں کر رہی ہے۔'

اپوزیشن کیا کہتی ہے؟

حزب اختلاف کی مختلف سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں نے سینیٹ الیکشنز میں ووٹنگ شو آف ہینڈ کے ذریعے کروانے کے فیصلے کو 'حکومت کی بوکھلاہٹ' قرار دیا ہے۔ 

سابق وزیر اعظم اور پاکستان مسلم لیگ ن کے رہنما شاہد خاقان عباسی کا کہنا تھا کہ تحریک انصاف کو خطرہ ہے کہ سینیٹ انتخابات میں اس کے اپنے اراکین بھی پھسل سکتے ہیں۔ 

انہوں نے کہا کہ پی ڈی ایم کی احتجاجی تحریک کے باعث حکومت مخالف احساسات اور جذبات میں اضافہ ہوا ہے اور حکومتی جماعتیں بھی اس سے مستثنیٰ نہیں ہیں۔ 

جمعیت علمائے اسلام کے رہنما سینیٹر مولانا عطا الرحمٰن نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا: 'ان حرکتوں سے ثابت ہوتا ہے کہ حکومت پی ڈی ایم سے کتنا زیادہ  ڈر رہی ہے۔'

انہوں نے مزید کہا کہ ابھی تو اتنا وقت بھی نہیں کہ اس سلسلے میں آئینی ترامیم کی جا سکیں۔ 

بلوچستان نیشنل پارٹی (بی این پی مینگل) کے سینیٹر ڈاکٹر جہانزیب جمالدینی نے کہا کہ حکومت ان ہتھکنڈوں کے ذریعے صرف اپنے وقت میں اضافہ کرنا چاہ رہی ہے۔ 

انہوں نے کہا کہ 'اس حکومت کو صرف عام انتخابات کروانے کی بات کرنی چاہیے تاکہ پاکستانی قوم کی ان سے جان چھوٹ سکے۔'

دوسری جانب پختون خوا ملی عوامی پارٹی کے رہنما محمد عثمان کاکڑ کا کہنا تھا کہ پی ڈی ایم نے اپنی حکمت عملی بنانی ہے اور ان کا واحد مقصد تحریک انصاف حکومت کا خاتمہ ہے۔ 

انہوں نے کہا کہ 'وفاقی کابینہ کے ان فیصلوں نے کنفرم کر دیا ہے کہ سینیٹ کے انتخابات نہیں ہوں گے، بلکہ اس سے پہلے ہی وفاقی حکومت ختم ہو جائے گی۔'

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان