سبین محمود، جن کی بات نہیں سنی گئی

سب سے تکلیف دہ بات یہ تھی کہ جب سبین محمود کو قتل کیا گیا تو ان کی والدہ بھی ان کے ساتھ تھیں۔

فوٹو کریڈٹ: اے ایف پی

آج 24 اپریل ہے، سبین محمود کی چوتھی برسی۔ آج سے چار سال پہلے جس روز سبین قتل ہوئی، اس سے پہلے میں اس کے نام تک سے واقف نہیں تھا۔ نہ ہی مجھے ان کے ادارے ٹی ٹو ایف کے متعلق علم تھا۔

وہ قتل ہوئیں تو مجھے ان کے اور ان کی سرگرمیوں کے متعلق واقفیت ہوئی۔ میں نے سبین کے قتل کے روز ایک تحریر بعنوان ’میں سبین محمود کو نہیں جانتا تھا ‘کے نام سے لکھی تھی۔

میرے تصور میں ان کی سوزوکی کار کی ڈرائیونگ سیٹ کے فرش پہ ان کے بےترتیب بکھرے ہوئے چپلوں کی جوڑی اور شیشے کی خون آلود کرچیاں ثبت ہیں۔ میرے لیے سب سے تکلیف دہ بات یہ تھی کہ جب انہیں قتل کیا گیا تو ان کی والدہ بھی ان کے ساتھ تھیں۔

 آج سے چار سال پہلے سبین کے قاتل نامعلوم تھے۔ جس طرح کے ماحول میں ان کا قتل ہوا تھا وہ بہت ڈراؤنا سا لگ رہا تھا۔ سبھی لوگ اشاروں کنایوں میں ایک دوسرے کو سمجھا رہے تھے کہ بلوچستان کے موضوع پر بات کی تو مارے جاؤ گے۔

پھر پتہ چلا کہ ان کا قاتل پکڑا گیا اور وہ ایک مذہبی شدت پسند تھا۔اسے فوجی عدالت کے ذریعے موت کی سزا سنا دی گئی اور اس پر عمل درآمد بھی ہوگیا۔ اس کے قاتل سے منسوب ایک بیان کے مطابق اس نے سبین کو اس لیے قتل کیا تھا کہ وہ پاکستان میں فحاشی پھیلا رہی تھیں۔

جب میں نے یہ بیان پڑھا تو مجھے ایک تصویر یاد آئی جو کہ سوشل میڈیا پہ بہت مشہور ہوئی تھی۔ اس تصویر میں سبین کے ہاتھوں میں ایک پوسٹر تھا جس پہ درج تھا: ’ روکیں مت ! پیار ہونے دیں۔‘

وہ پیار پھیلانے والی، حساس موضوعات پہ بات کرنے والی، مجبور اور بے سہارا لوگوں کے لیے آواز بننے والی ہی تو تھیں کہ انہوں نے ایک ایسے معاشرے میں جہاں بات کی اجازت نہیں ہے ایک ایسا ادارہ بنایا جس کا مقصد آزادی سے مکالمہ اور بات چیت کی فضا مہیا کرنا تھا۔

وہ نڈر بے باک اور بہادر تھیں اسی لیے تو انہوں نے اس معاشرے میں ایسی راہ چُنی جس پہ چلنے کا مطلب اپنی جان ہتھیلی پہ رکھنا ہے۔

آج وہ نہیں ہیں لیکن بنایا ہوا ٹی ٹو ایف موجود ہے۔ جہاں بات کی جا سکتی ہے۔ شاید انہیں جون کے اس شعر کا شدت سے احساس تھا:

ایک ہی حادثہ تو ہے اور وہ یہ کہ آج تک
بات نہیں کہی گئی، بات نہیں سنی گئی

 

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ