افغان خواتین کی ’ریڈ لائن‘ مہم

افغان خواتین کابل حکومت، امریکہ اور طالبان پر زور دے رہی ہیں کہ وہ امن کی دوڑ میں ان کے حقوق اور ترقی کو نہ بھولیں۔

فائل تصویر: اے ایف پی

افغانستان کی خواتین نے کابل حکومت، امریکہ اور طالبان پر زور دیا ہے کہ وہ امن کی دوڑ میں ان کے حقوق اور ترقی کو نہ بھولیں۔

اس مقصد کے لیے افغان خواتین نے سوشل میڈیا پر ’مائی ریڈ لائن‘ کے نام سے مہم کا آغاز کیا ہے، جس میں خواتین طالبان حکومت کی واپسی کی صورت میں اپنے حقوق اور ترقی پر شب خون مارے جانے کے خطرے کا اظہار کر رہی ہیں۔

یہ مہم افغان صحافی فرح ناز فروتان نے فیس بک اور ٹوئٹر پر یو این وومن افغانستان کی مدد سے گذشتہ مہینے شروع کی۔

فرح نے اے ایف پی کو بتایا کہ ٹوئٹر پر ہیش ٹیگ ’مائی ریڈ لائن‘ میں ہزاروں صارفین نے حصہ لیا۔ اسی طرح فیس بک پر بھی دری، فارسی اور انگریزی میں لوگ اپنے خیالات کا اظہار کر رہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا: ’میری سرخ لکیر میرا قلم اور میری اظہار رائے کی آزادی ہے۔‘

افغان صدر اشرف غنی نے بھی مہم میں حصہ لیتے ہوئے ٹویٹ کی: ’امن عمل میں حقوق نسواں کی حفاظت میری حکومت کی سرخ لکیر ہے۔‘

اس مہم کو مزید اہمیت اس وقت حاصل ہوئی جب معروف ہالی وڈ اداکارہ اور اقوام متحدہ کی نمائندہ خصوصی انجلینا جولی نے اس سلسلے میں ٹائم میگزین میں ایک مضمون لکھا۔

انجلینا لکھتی ہیں: ’افغان خواتین کو اپنے حقوق کے لیے بولنے کا موقع ملنا چاہیے۔‘

ان کے خیال میں جنگ کے متاثرین کو معاشرتی انصاف نہ ملنے کی صورت میں امن دیرپا نہیں ہوگا۔

طالبان نے 2000ء تک امارات اسلامی افغانستان کے نام سے حکومت قائم رکھی تھی۔ اپنے پانچ سالہ اقتدار میں طالبان نے سخت گیر رویہ اپناتے ہوئے خواتین پر گھروں سے باہر نکلنے اور برقعہ پہننے جیسی پابندیاں لگائیں جبکہ زنا کے الزامات میں خواتین کو کوڑے مارے اور سنگسار کیا گیا۔

23 سالہ سائیکل سوار ثمینہ نے اس حوالے سے اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے کہا: ’طالبان کی حکومت آنے کی صورت میں ہمیں کھیلوں اور تعلیم کا حق نہیں ہوگا، حتی کہ ہمیں گھروں سے نکلنے کی بھی اجازت نہیں ہوگی۔‘

ثمینہ نے مزید کہا: ’خواتین کو امن تو چاہیے لیکن وہ کھیلنا اور سائیکل چلانا بھی چاہتی ہیں۔‘

افغانستان کی قومی سائیکلنگ ٹیم کی کبریٰ شمیم نے بھی فیس بک پر خواتین کی کھیلوں میں شمولیت کو اپنی سرخ لکیر قرار دیا۔

سمیرا حمیدی نے اپنی ٹویٹ میں افغان امن عمل میں خواتین کی شمولیت کی ضرورت پر زور دیا جبکہ سابقہ سیاست دان فرخندہ زہرا نادری نے کہا: ’خواتین کے قائدانہ کردار کی حفاظت پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہونا چاہیے۔‘

ہیومن رائٹس واچ کے شریک ڈائریکٹر ہیتھر بار نے کہا کہ افغان خواتین اس وقت ایک مشکل کام کر رہی ہیں۔ ان کا خیال تھا کہ یہ کوشش افغان معاشرے میں بنیادی تبدیلیوں کا باعث بنے گی۔

دوسری جانب امریکی سینیٹر جین شاہین نے کابل میں میڈیا سے گفتگو میں کہا: ’خواتین اور ان سے متعلق امور کسی بھی قسم کے مذاکرات کا حصہ ہونا چاہیے۔‘

زیادہ پڑھی جانے والی ٹرینڈنگ