پاکستان کے چڑیا گھروں میں جانوروں کی زندگی پر اٹھتے تحفظات

ماضی قریب میں کاون ہاتھی کی واپسی سمیت کئی جانوروں کے بیمار ہونے کے بعد اب بہاولپور کے چڑیاگھرمیں نایاب نسل کے سات ہرن ہلاک ہونے کی اطلاع سامنے آئی ہے، جب کہ بارہ کی حالت تشویشناک ہے۔

(تصویر: ارشد چوہدری)

آج دن میں بہاولپور کے چڑیاگھرمیں نایاب نسل کے سات ہرن ہلاک ہونے کی اطلاع سامنے آئی ہے، جب کہ بارہ کی حالت تشویشناک ہے۔

پاکستان میں گزشتہ کئی ماہ سے چڑیا گھروں میں جانوروں کے عدم تحفظ پر تشویش پائی جاتی ہے۔ ماضی قریب میں کاون ہاتھی کی واپسی سمیت کئی جانوروں کے بیمار ہونے کے بعد اب بہاولپور کے چڑیاگھرمیں نایاب نسل کے سات ہرن ہلاک ہونے کی اطلاع سامنے آئی ہے، جب کہ بارہ کی حالت تشویشناک ہے۔

یہ معاملہ اس وقت سے زیادہ زیر بحث ہے جب سے رواں سال مئی میں اسلام آباد ہائیکورٹ نے ایک شہری کی درخواست پر سماعت کرتے ہوئے مرغزارچڑیاگھراسلام آباد میں جانوروں کی حالت پر تشویش کا اظہار کیا۔

کاوان ہاتھی کی دیکھ بھال نہ ہونے پر عدالت نے قراردیاتھاکہ جانوروں کی دیکھ بھال نہیں کی جارہی اور وہ عدم تحفظ کاشکار ہیں۔

عدالت نے حکم نامے میں کہا تھاکہ چڑیا گھر وں میں جانوروں کے لیے سہولیات کا فقدان ہے جس کے باعث جانور اذیت میں مبتلا ہیں جو کہ جنگلی حیات کے آرڈیننس کی خلاف ورزی ہے۔

عدالت نے حکم دیا تھاکہ چڑیا گھر کے تمام جانوروں کو اندرونِ ملک یا ملک سے باہر پناہ گاہوں میں منتقل کیا جائے اور اس سلسلے میں وزارت موسمیاتی تبدیلی اور اسلام آباد کی انتظامیہ اور وائلڈ لائف بورڈ مل کر کام کریں۔

ایک رپورٹ کے مطابق پشاور کے چڑیا گھر میں گذشتہ 9 ماہ کے دوران جانوروں کی دیکھ بھال کے مناسب انتظامات نہ ہونے کے باعث 18 جانور مر چکے ہیں۔

اسی طرح لاہور سمیت مختلف چڑیاگھروں میں جانوروں کی ہلاکت بیماری اور چوری ہونے کے واقعات بھی گاہے بگاہے رپورٹ ہوتے رہے ہیں۔

محکمہ وائلڈ لائف پنجاب کے ڈپٹی ڈائریکٹر محکمہ تحفظ جنگلی حیوانات زاہد علی سے جب بہاولپور چڑیاگھر میں ہرنوں کی ہلاکت سے متعلق رابطہ کیاگیاتو انہوں نے بتایاکہ اس جگہ نایاب نسل کےکل 29ہرن رکھے گئے تھے۔ جن میں سے 22ہرن اچانک زمین پر گرے اور تڑپنے لگے۔  

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

چڑیاگھر میں موجود عملے نے انہیں فوری انجکشن لگائے مگر سات ہلاک ہوگئے جبکہ 12کی حالت خراب ہے اور تین صحت مند ہوگئے ان میں سےایک مادہ ہرن نے بچے کو بھی جنم دیاہے۔

ان سے ہرن مرنے کی وجہ پوچھی گئی تو انہوں نے خدشہ ظاہر کیا کہ شاید ان کی خوراک یا پانی میں زہر تھایا کوئی وبائی بیماری کا اچانک حملہ تھا۔

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ خوراک اور پانی کے نمونے لاہور لیب میں بھجوادیے گئے ہیں رپورٹ آنے پر حقیقت سامنے آئےگی۔

انہوں نے کہاکہ کرونا میں عملہ کی چھٹیوں کی وجہ سے بے احتیاطی کا تاثر غلط ہے کیونکہ ہم نے عملے کو چھٹیاں نہیں دیں۔

ڈائریکٹر جنرل آفس محکمہ وائلڈ لائف کی جانب سے جاری کردہ وضاحت کے مطابق چڑیاگھر میں ہرنوں کی ہلاکت کے معاملہ پر تحیقاتی کمیٹی تشکیل دیدی گئی ہے جو ذمہ داروں کا تعین کرے گی۔

جانوروں کے تحفظ کے لیے کام کرنے والی ایکٹوسٹ سارہ احمد کے مطابق پاکستان میں جانوروں کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے موثر اقدامات دکھائی نہیں دیتے۔ تفریح گاہوں میں ہوں یا باہر پھرتے جانور انہیں سنجیدگی سے تحفظ دینے کی کوشش نہیں ہوتی۔ ہمارے ہاں جانوروں کو صرف تفریح کا ذریعہ سمجھاجاتاہے یہ نہیں سوچاجاتاکہ یہ بھی جاندارہیں اور ان کی زندگی بھی اہم ہے۔

دوسری جانب جانوروں کے تحفظ سے متعلق قوانین تو موجود ہیں لیکن بد قسمتی سے ان پرعملدرآمد نہیں کیاجاتا۔

سارہ کے مطابق جب تک ہمدردی کے تحت جانوروں کو تحفظ فراہم کرنے کا جذبہ پوری طرح بیدار نہیں ہوگاچڑیاگھرتوکیاکہیں بھی جانور محفوظ نہیں ہوں گے۔ عالمی سطح پر اس حوالے سے کافی کام ہورہاہے لیکن یہاں اس جانب سنجیدگی سے کوئی حکمت عملی تیار نہیں کی گئی۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان