ایران نے مولانا رومی کا نام اور تصاویر کیوں حذف کر دیں؟

ایک ایسے وقت میں جب افغانستان اور ترکی مولانا رومی کو اپنی ثقافتی تاریخ کا حصہ بنانے کی کوشش میں ہیں، ایران نے ان کا نام کتابوں سے ہٹانے کا سلسلہ شروع کر دیا ہے۔

(اے ایف پی)

مہدی اخوان ثالث، امیر ہوشنگ ابتہاج اور نیما یوشیج  جیسے شعرا کے نام خارج کرنے اور نادر ابراہیمی اور ہوشنگ مرادی کرمانی کی کہانیوں میں تحریف کرنے کے بعد انقلاب کی پاسدار ایرانی حکومت نے اس بار سینسرشپ کے تحت مولانا رومی اور ان کی تصاویر کو ادب کی کتابوں سے ہٹا دیا ہے۔

دنیا بھر میں معروف ان ایرانی شاعر کا نام اور تصاویر ہٹانے کا حالیہ ایرانی اقدام اس وقت سامنے آیا ہے جب افغانستان  رومی کو ’مولانا جلال الدین محمد بلخی‘ کہہ کر اپنی تاریخ کا حصہ بنانے کی سعی میں  ہے۔ افغانستان میں انہیں بلخی اس لیے کہا جاتا ہے کیونکہ یہ تاریخی شہر ان کی جائے پیدائش ہے۔

دوسری جانب ان کا مقبرہ قونیہ میں ہے اس لیے ترکی میں بھی ہر سال مختلف تقریبات کا انعقاد ہوتا ہے اور پروپیگنڈے کے ذریعے وہ مولانا رومی کو ترک شاعر کے طور پر متعارف کروانے کی کوشش کرتے ہیں۔ ایران مولانا کا اس لیے دعویدار ہے کیوں کہ ان کی تمام نظمیں فارسی میں ہیں۔

بعض لوگوں کا خیال ہے کہ اس نظم کا حذف کیا جانا ادبی لحاظ سے درست ہے کیوں کہ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ یہ مولانا کی نہیں ہے، لیکن اس بارے میں تنازعے اور ادبیات کی کتاب کے سرورق سے مولانا کی تصویر کا ہٹا دیا جانا اور دیگر اساطیر کو بھی خارج کرنا یہ ظاہر کرتا ہے کہ اس معاملے کا تعلق نظریات سے ہے۔

اس سلسلے میں مصنف کا رومی نام کو بطور شاعر استعمال کرنے کا جواز یہ تھا کہ اگرچہ یہ شاعری رومی کی نہیں تھی لیکن وہ لوگوں میں انہیں کے نام سے مشہور ہوچکی تھیں اور اسی وجہ سے انہیں نصابی کتب میں اسی طرح ہی شامل کر دیا تھا۔

حال ہی میں وحید ہروآبادی نے ایک انٹرویو میں کہا کہ کچھ لوگ اسے رومی کی شاعری مانتے ہی نہیں کیونکہ ان کے نزدیک یہ کتاب گمراہ کن اور ملحد نظریات پر مشتمل ہے۔

نیز خبر رساں ادارے ’ایسنا‘ نے ’قصہ ہائے مجید‘ کے مصنف ہوشنگ مرادی کرمانی کے حوالے سے بتایا ہے کہ ان کی داستان کو ان کے علم میں لائے بغیر ہی تبدیل کر دیا گیا اور وہ اس سے مطمئن نہیں ہیں اور نہ ہی انہیں اس بارے میں مطلع کیا گیا۔

’سفرنامہ اصفہان‘ کے اصل متن میں لکھا ہے: ’میں بےکار نہیں بیٹھا، بغیر ناشتہ کیے ہی خالی پیٹ چل پڑا۔‘ اس متن کو کتاب میں یوں تبدیل کر دیا گیا ہے: ’میں نے نماز پڑھی، ناشتہ کیا اور چل پڑا۔‘

مراد کرمانی کی کہانی میں لکھا ہے: ’ظہر کا وقت تھا، اذان کی آواز آئی۔ آغا اکبر کا کام ابھی ختم نہیں ہوا تھا۔ مجھے اکتاہٹ ہونے لگی۔‘

لیکن بچوں کی کتاب میں اسے بدل دیا گیا: ’ظہر کا وقت تھا۔ اذان کی آواز آئی۔ میں نے وضو کیا اور نماز ادا کی۔ آغا اکبر کا کام ابھی ختم نہیں ہوا تھا۔ مجھے اکتاہٹ ہونے لگی۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

گذشتہ سال عطار نیشاپوری، نیما یوشیج، راہی معیری، مہدی اخوان ثالث، اور ہوشنگ ابتہاج (سایہ) جیسے شاعروں کے نام ایران کی نصابی کتب سے خارج کردیئے گئے تھے۔

نیز غلام حسین سعیدی، زرگ علوی ایرج میرزا و شفیعی کدکنی کی تحریریں بھی سپریم لیڈر کی اصلاحاتی کسوٹی پر پورا نہیں اتر سکیں۔

وزارت تعلیم کی تحقیق و منصوبہ بندی تنظیم کے سربراہ علی زوعلم نے کہا: ’یقینی طور پر ایرانی نظام نظریات پر مبنی ہے۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ ’تعلیمی اصلاحات سے متعلق دستاویز میں ایران میں ایک اہم فریم ورک ہے جسے ’اسلام کا معیاری نظام‘ کہا جاتا ہے۔ یعنی اس نظام کے تحت اگر مصنفین اسلامی معیار پر پورا نہیں اترتے ہیں تو ہم ان کے تصانیف کو استعمال نہیں کرسکتے ہیں اور یہ بات واضح ہے۔‘

تاہم ایسا لگتا ہے کہ درسی کتب میں تبدیلی اور ایرانی ادب سے تاریخ کی عظیم شخصیات کے ناموں کو ہٹانے کے پیچھے بھی  ثقافتی ایجنڈا شامل ہے۔

انڈپینڈنٹ فارسی کی درخواست پر وزیر تعلیم اور درسی کتب کے ایڈیٹرز نے ابھی تک اس پر کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے۔

گذشتہ چار دہائیوں کے دوران ایران مکمل طور پر بدل گیا ہے۔ اس تبدیلی کا ایک بہت بڑا حصہ دنیا میں ہونے والی تبدیلیوں اور ’انفارمیشن ایج‘ میں داخل ہونے کی وجہ سے ہے لیکن اس کا دوسرا حصہ حکومتی دباؤ کے ذریعے معاشرے کے سوچنے سجھنے کے طریقے میں تبدیلی لانے اور ان کی برین واشنگ کا نتیجہ ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ادب