مردان: دو بچوں کے ریپ میں ملوث مدرسے کا چوکیدار گرفتار

خیبر پختونخوا میں رواں سال میں جنسی زیادتی کے پہلے رپورٹ ہونے والے واقعے میں مردان کے مدرسے کے چوکیدار کو دو بچوں کے ریپ میں ملوث ہونے کے لیے گرفتار کرلیا گیا ہے۔

بچوں پر جنسی تشدد کے خلاف کراچی میں ایک مظاہرہ (اے ایف پی فائل)

خیبر پختونخوا کے ضلع مردان میں رواں سال کے آغاز میں ہی ایک مدرسے میں دو بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کا واقعہ رپورٹ ہوا۔

ضلع مردان کے علاقے تھانہ شیخ ملتون کی حدود میں واقع مدرسہ دارالعلوم شریعہ میں چار جنوری کو پیش آنے والے اس واقعے کی تفصیلات بتاتے ہوئے محرر عطااللہ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ اس میں مدرسے کا 37 سالہ چوکیدار/ڈرائیور محمد کامران ملوث تھا جو پچھلے ایک سال سے بچوں کو ڈرا دھمکا کر جنسی زیادتی کا مرتکب ہوتا رہا۔

مردان پولیس کے ایک افسر نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر معلومات فراہم کرتے ہوئے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ محمد کامران اس وقت بے نقاب ہوا جب ریپ کا نشانہ بننے والا ایک گیارہ سالہ بچہ اپنے ساتھ ہونے والے واقعے کے بارے میں مدرسے کی انتظامیہ کو بتائے بغیر ہی پشاور اپنے گھر چلا گیا۔

پولیس افسر نے بتایا: ’جب گھر والوں نے اچانک گھر آنے کی وجہ پوچھی تو اس نے چوکیدار کی بد فعلی کا ماجرا سنایا۔ نتیجتاً، بچے کے بڑے بھائی اسے فوراً مدرسے واپس لے کر گئے اور وہاں پوچھ گچھ شروع کی جس پر وہیں زیر تعلیم اس کے دوسرے بھائی نے کہا کہ یہ سچ ہے کیونکہ وہ چوکیدار کی ایک اور بچے کے ساتھ جنسی زیادتی کا چشم دید گواہ ہے۔‘

معاملےکی حقیقت ظاہر ہوتے ہی والدین نے وہاں کے تھانےمیں رپورٹ درج کروائی۔ بچوں کا میڈیکل کروایا گیا تو ریپ کی اطلاع درست نکلی اور اس طرح ملزم کو گرفتار کروا کر سینٹرل جیل مردان بھجوا دیا گیا۔

 مذکورہ افسر نے بتایا کہ ایک اور 16 سالہ لڑکے نے بھی شکایت کی کہ محمد کامران نے اسے بھی کئی بار راغب کرنے کی کوشش کی تاہم ملزم اس میں کامیاب نہ ہو سکا تھا۔ اس کا کہنا تھا کہ وہ ملزم کو ذاتی طور پر جانتے ہیں، جو کہ شادی شدہ ہے اور جس کے ازدواجی حالات خوشگوار نہیں ہیں۔

تھانے سے موصول ہونے والی مزید اطلاعات کے مطابق متاثرہ بچوں کو ان کے والدین کے حوالے کیا جا چکا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

 مدرسے کے منتظم مفتی کفایت اللہ نے ملزم کے اس فعل کی مذمت کی ہے اور انہوں نے کہا کہ اس سے قبل ان کے علم میں کبھی بھی کوئی شکایت نہیں لائی گئی۔

پولیس کے مطابق ملزم چوکیدار کا کمرہ عین بچوں کے کمرے کے ساتھ متصل تھا جہاں وہ انہیں اپنا شکار بناتا تھا۔

پولیس کے مطابق متاثرہ بچے  غریب خاندانوں سے تعلق رکھتے تھے جن میں ایک کا تعلق پشاور اور دوسرے کا تعلق مردان سے تھا۔

11 سالہ متاثرہ بچے کے بڑے بھائی شاکر اللہ نے اس واقعے پر افسوس کرتے ہوئے کہا کہ وہ دس بہن بھائی ہیں اور ان کے علاقے کا ایک قاری اسی مدرسے میں پڑھاتا تھا لہذا انہوں نے بھائیوں کو جان پہچان کی بنا پر مدرسے میں داخل کروایا۔

شاکر اللہ نے بتایا کہ ملزم کے قبضے سے موبائل کے کئی میموری کارڈ پولیس تحویل میں لیے جا چکے ہیں جن سے نازیبا فلمیں برآمد ہوئی ہیں۔

ان کا کہنا تھا: ’میرے بھائی نے بتایا کہ ملزم یہ فلمیں بچوں کو دکھاتا تھا۔ اور ساتھ ہی انہیں ڈرا دھمکا کر کہتا تھا کہ اگر کسی کو بتایا تو انہیں جان سے مار دے گا۔‘

’سیکس ایجوکیشن دی جائے‘

پندرہ سال سے پاکستان کے مختلف علاقوں میں آگاہی پھیلانے والی چائلڈ ایکٹیویسٹ نورین فرحان نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ مذمتیں بہت ہو چکیں، اب عملی طور پر کوئی پالیسی لانے کی ضرورت ہے۔

انہوں نے کہا کہ سکولوں اور مدارس میں  یکساں طور پر بچوں کو سیکس ایجوکیشن دینے کی ضرورت ہے۔

’بچوں کو گڈ اور بیڈ ٹچ سکھائیں۔ انہیں بتائیں کہ جسم کا کون سا حصہ چھونے پر انہیں شور مچانا چاہیے اور شکایت کرنی چاہیے۔ اور یہ سب کرنے کے لیے ہر سطح پر، ہر شعبے میں سینیئر لوگوں کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔‘

نورین فرحان نے کہا کہ پاکستان کی اکثریت میں سیکس ایجوکیشن کو اتنا برا سمجھا جاتا ہے کہ جب وہ کسی علاقے میں بچوں کو شعور دینے کی غرض سے جاتی ہیں تو وہاں کے لوگ کہتے ہیں کہ ’گندی باتیں کرنےوالی آ گئی۔‘

انہوں نے کہا کہ جب تک یہ سوچ ختم نہیں ہوگی اور والدین اور معاشرے کے دیگر افراد مل کر بچوں کو سمجھانے کے عمل کی اجازت نہیں دیں گے، جنسی تشدد کا ناسور ختم نہیں ہوگا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان