پاکستان: کپاس کی پیداوار تین دہائیوں میں سب سے کم سطح پر

پاکستان کاٹن جنرزایسوسی ایشن کے مطابق گذشتہ سال 83 لاکھ گانٹھوں کے مقابلے میں 15 جنوری 2021 تک کپاس کی پیداوار کم ہو 55 لاکھ گانٹھیں رہ گئی ہے۔

پاکستان میں تقریباً15 لاکھ کاشت کاروں کاروزگار  براہ راست کپاس کی کاشت سے وابستہ ہے۔(اے ایف پی فائل)

پاکستان کاٹن جنرز ایسوسی ایشن نے کہا ہے کہ ملک میں کپاس کی پیداوار 34 فیصد کم ہو کر 55 لاکھ گانٹھیں رہ گئی ہے اور کپاس کی یہ پیداوار تین دہائیوں میں سب سے کم ہے جس کی وجہ حکومتی پالیسیوں کی بنا پر کاشتکاروں کی توجہ گنے، مکئی اور چاول کی طرف راغب ہونا ہے۔ 

ادارہ شماریات کے مطابق کپاس ملکی معیشت کا اہم جزو اور مجموعی قومی پیداوار میں اس کا حصہ تقریباً ایک فیصد ہے۔

’عرب نیوز‘ کے مطابق پاکستان کاٹن جنرزایسوسی ایشن (پی سی جی اے) کے چیئرمین ڈاکٹر جسومل ٹی لیمانی نے پیر کو کراچی میں پریس کانفرنس میں کہا ہے کہ گذشتہ سال 83 لاکھ گانٹھوں کے مقابلے میں 15 جنوری 2021 تک کپاس کی پیداوار کم ہو 55 لاکھ گانٹھیں رہ گئی ہے۔ ان کا کہنا تھا: ’15-2014 سے کپاس کے زیرکاشت رقبے میں 35 فیصد کمی ہوئی ہے جس کی وجہ یہ ہے کہ حکومت کی جانب سے امدادی قیمتوں کی بنا پر کاشت کاروں نے کپاس کی بجائے گنا کاشت کرنا شروع کر دیا ہے۔‘

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ خراب موسم اور تصدیق شدہ بیجوں کی قلت بھی کپاس کی پیداوار میں کمی کا سبب ہیں۔

لیمانی کے مطابق ملک میں 15-2014 میں ڈیڑھ کروڑ گانٹھیں کپاس کی سب سے زیادہ پیدوار تھی، لیکن تب سے کپاس کی پیدوار کم ہو رہی ہے اس لیے حکومت ملکی ٹیکسٹائل سیکٹر کی ضروریات پوری کرنے کے لیے کپاس درآمد کرنے پر مجبور ہو گئی ہے۔

کپاس پاکستان کی ٹیکسٹائل صنعت کی جان ہے۔ ملکی برآمدات میں ٹیکسٹائل مصنوعات کا حصہ آدھے سے زیادہ ہے۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ برآمدات کا فروغ برقرار رکھنے کے لیے کارخانوں کو اس سال کپاس کی 70 سے80 لاکھ گانٹھیں درآمد کرنی پڑیں گی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

کپاس کے کاروبار سے وابستہ اور تجزیہ کار نسیم عثمان اوساوالا کے بقول: ’توقع ہے کہ کپاس اور اس کی مصنوعات کی درآمد پر تقریباً تین ارب ڈالر خرچ ہوں گے۔‘

پاکستان ادارہ شماریات کے مطابق رواں مالی سال کی پہلی ششماہی میں پاکستان کی جانب سے خام کپاس کی درآمد میں 512 فیصد اضافہ ہوا اور اور اس ک درآمد پر 53 کروڑ 20 لاکھ ڈالر خرچ کیے گئے۔

اس کے برعکس گذشتہ مالی سال کے دوران 88 کروڑ ڈالر کی خام کپاس برآمد کی گئی۔ یہ درآمد اس سے پچھلے مالی سال کے مقابلے میں 14.67 فیصد زیادہ تھی۔

پاکستان کے مرکزی بینک کے اعدادوشمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ رواں مالی سال کے دوران کپاس کی کاشت میں 11.9 فیصد کمی کے ساتھ 22 لاکھ ہیکٹر پر کاشت کی گئی ہے جو 1982 کے مالی سال سے زیر کاشت آنے والا سب سے کم رقبہ ہے۔ مرکزی بینک کے مطابق معمول سے بہت زیادہ بارشوں اور کیڑوں کے حملے سے کپاس کی فصل کو نقصان پہنچا۔ 

تجزیہ کاروں کے مطابق قلت کی وجہ سے تقریباً نو سال بعد مقامی منڈی میں کپاس کی قیمتوں میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ اوساوالا کہتے ہیں: ’کپاس کی موجودہ قیمت 11 ہزار روپے فی گانٹھ (40 کلوگرام) ہے جو 11-2010 میں ریکارڈ کی گئی 14 ہزار روپے کی سب سے زیادہ قیمت کے قریب ترین ہے۔‘

جنرز کے مطابق کپاس کی پیداوار کم ہونے سے ملک بھر میں جننگ کے 60 فیصد کارخانے بند اور ہزاروں افرا د بے روز گار ہو چکے ہیں۔ پاکستان میں تقریباً15 لاکھ کاشت کاروں کا روزگار  براہ راست کپاس کی کاشت سے وابستہ ہے۔

زیادہ پڑھی جانے والی معیشت