پہلے 100 دن: بائیڈن اور عمران کے ایجنڈے میں کیا فرق ہے؟

بائیڈن اور عمران میں ایک چیز یہ بھی مشترک ہے کہ دونوں کا انتخاب سابق حکمرانوں سے عوام کی شدید مایوسی کی صورت میں ہوا تھا۔

عمران اور بائیڈن میں کیا چیزیں مشترک، کیا مختلف ہیں (روئٹرز)

پاکستان اور امریکہ کے حالات اور واقعات میں اگرچہ کوئی مماثلت نہیں ہے لیکن جو چیز مشترک ہے وہ ان کے نو منتخب حکمرانوں کے پہلے 100 دن کا ایجنڈا ہے۔

عمران خان نے اعلان کیا تھا کہ وہ جیتنے کی صورت میں پہلے سو دن کے اندر فاٹا کو خیبر پختونخوا میں ضم کر دیں گے تاکہ ایف سی آر جیسے کالے قوانین کا خاتمہ ہو۔ جنوبی پنجاب کا الگ صوبہ بنائیں گے۔ بلوچستان کے لوگوں کے ساتھ مفاہمت کی راہ ہموار کریں گے۔ کراچی پیکج جس میں ٹرانسپورٹ کا نظام، چائنا کٹنگ کا خاتمہ، امن و امان کی بحالی، سیاسی جماعتوں کے عسکری ونگز کا خاتمہ، لوگوں کے لیے چھت کی فراہمی اور مقامی حکومتوں کی خودمختاری شامل تھی۔ بیروزگاری کے خاتمہ کے لیے ایک کروڑ نوکریاں، 50 لاکھ گھروں کی تعمیر، سیاحت کا فروغ، محاصل کے نظام میں اصلاحات، سی پیک کو سود مند بنانا شامل تھا۔ ملک میں زرعی ایمرجنسی کا نفاذ تاکہ تاکہ زرعی پیداوار اور لائیوسٹاک میں اضافہ کیا جا سکے۔ صحت و تعلیم میں اصلاحات اور دہشت گردی کا خاتمہ بھی ان کی ترجیحات میں شامل تھے۔

عمران خان حکومت کو آئے ہوئے اڑھائی سال گزر بھی چکے ہیں لیکن سوائے فاٹا کے انضمام کے ابھی تک پہلے 100دن کا ایجنڈا ہی پھنسا ہوا ہے۔ دوسری طرف پاکستان کے مقابلے میں دنیا کا طاقت ور ترین ملک امریکہ ہے جس کے نو منتخب صدر جو بائیڈن ہیں جو عمران خان کے مقابلے میں حکومت اور پارلیمانی سیاست کا 50 سالہ تجربہ رکھتے ہیں۔ وہ صدر کا عہدہ سنبھالنے سے پہلے نائب صدر رہ چکے ہیں۔ سینیٹ کی خارجہ تعلقات کمیٹی کے طویل عرصے تک رکن اور پھر چیئرمین بھی رہے۔ جبکہ عمران خان کو سیاست کا اتنا طویل سیاسی تجربہ ہر گز نہیں رہا وہ وزیراعظم بننے سے پہلے صرف دو بار رکنِ پارلیمان بنے۔ لیکن ایک بات جو دونوں میں مشترک ہے وہ کھلاڑی ہونا ہے۔ عمران خان کرکٹ کے کھلاڑی رہے جبکہ بائیڈن کا شمار واشنگٹن کے اچھے گالفرز میں رہا ہے۔

بائیڈن نے اپنی ٹیم سے مشاورت کے بعد اپنے لیے پہلے 100 دن کے اہداف متعین کیے ہیں جن کے پیچھے طویل سیاسی تجربہ ہے۔ ایسا نہیں ہو گا کہ 100 دن گزارنے کے بعد وہ عمران خان کی طرح یو ٹرن لیتے پھریں گے بلکہ جیسے ہی وہ صدر منتخب ہوئے انہوں نے اپنے ایجنڈے پر کام شروع کر دیا تھا۔ ان کے ایجنڈے کے اہم نکات میں 19 کھرب ڈالر کا کرونا ریلیف پیکج دینا اور صدر ٹرمپ کا مواخذہ شامل ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

بائیڈن کے پاس دونوں ایوانوں میں فیصلہ کن حمایت نہیں ہے اس لیے کئی اہم امور پر خصوصی صدارتی اختیارات استعمال کرتے ہوئے ایگزیکٹو آرڈرز جاری کریں گے جن میں ماحولیات سے متعلق پیرس کلب میں امریکہ کی واپسی بھی شامل ہے۔ اس کے علاوہ وہ کئی افریقی اور مسلم ممالک پر عائد سفری پابندیوں کا خاتمہ کریں گے اور ٹرمپ کی وہ پالیسیاں جن کی وجہ سے عالمی سطح پر امریکہ کا وقار مجروح ہو اتھا اسے بحال کرنے کی کوشش کریں گے۔ وہ امریکہ میں موجود ایک کروڑ دس لاکھ سے زائد غیر قانونی شہریوں کو قانونی حیثیت دینے کے لیے ایک بل متعارف کرائیں گے۔

پہلے سو دنوں میں نئے امریکی صدر دس کروڑ امریکی شہریوں کو کرونا ویکسین لگوانے کا عزم بھی کیے ہوئے ہیں۔ 19 کھرب ڈالر کے ریلیف پیکج میں سکولوں کو دوبارہ فعال بنانے کے لیے 130 ارب ڈالر کا پیکج بھی شامل ہے تاکہ کرونا کے ایس او پیز کے مطابق بچوں کی پڑھائی کو یقینی بنایا جا سکے۔

تاہم بعض ایسے معاملات بھی ہیں جس میں بائیڈن کو اپنی ہی پارٹی کی جانب سے مزاحمت کا سامنا ہو گا۔ مثال کے طور پر بائیڈن نہیں چاہتے کہ طالب علموں کو سود کے بغیر قرضوں کی فراہمی ہو جبکہ ان کی اپنی ہی جماعت کے بعض آزاد خیال اراکین چاہتے ہیں کہ بائیڈن امریکی طلبہ کے ذمہ واجب الادا 16 کھرب ڈالر کے قرضوں کی معافی کا اعلان کر دیں۔ ٹرمپ نے ایگزیکٹو آرڈر کے تحت غیر قانونی شہریوں کو مردم شماری میں شمار کرنے سے روک دیا تھا، خیال ہے کہ بائیڈن دوبارہ ایگزیکٹیو آرڈر جاری کر کے انہیں شمار کرائیں گے کیونکہ امریکہ میں ریاستوں میں فنڈز کی تقسیم ہر دس سال بعد ہونے والی مردم شماری کی بنیاد پر ہوتی ہے۔

بائیڈن ، ٹرمپ کی جس حکمت عملی کی پیروی کریں گے وہ امریکہ کی چین کے بارے میں پالیسی ہے۔ چینی اشیا کی امریکہ میں در آمد پر درآمدی ٹیرف وہی رہے گا۔ لیکن بائیڈن ایران کے حوالے سے 2015 کی نیوکلیئر ڈیل کو بحال کرنے کی کوشش کریں گے۔

قانون سازی کے لیے بھی بائیڈن کو کم و بیش انہی مشکلات کا سامنا ہے جن کا عمران خان کو ہے۔ عمران خان اتحادی جماعتوں کو ملا کر سادہ اکثریت سے حکومت سازی میں کامیاب ہوئے تھے جبکہ اس کے ایوان بالا میں صرف 14 سینیٹرز ہیں ا س کے مقابلے پر بائیڈن کی جماعت ڈیموکریٹک پارٹی کو رپبلکن پارٹی کے 212 اراکین کانگریس کے مقابلے میں 222 کی سادہ اکثریت حاصل ہے اور سینیٹ میں دونوں جماعتوں کے اراکین کی تعداد برابر یعنی 50، 50 ہے۔ اس کے مقابلے میں عمران خان کی جماعت تحریک انصاف کو 342 کے ایوان میں 156 سیٹیں حاصل ہیں جبکہ حکومت سازی کے لیے سادہ اکثریت بھی 172 بنتی ہے۔ جس کے لیے اسے ایم کیو ایم اور مسلم لیگ ق کا سہارا لے کر حکومت بنانی پڑی ہے۔ بی این پی مینگل کی علیحدگی کے بعد اب قومی اسمبلی میں اسے صرف 180 اراکین کی حمایت حاصل ہے۔ سینیٹ میں پی ٹی آئی کی 14 نشستیں ہیں جو مارچ میں بڑھ کر 30 ہونے کا امکان ہے۔

بائیڈن کو اس حوالے سے عمران پر سبقت حاصل ہے کہ وہ ایک آزمودہ کار سیاستدان ہیں جنہوں نے امریکہ کی سینیٹ میں 36 سال گزارے ہیں بہت سے سینیٹروں کے ساتھ انہوں نے طویل عرصہ کام کیا ہے۔ اس لیے ٹیکسوں کے نظام میں اصلاحات کے لیے اسے ایوان زیریں کے ساتھ ایوان بالا سے بھی مطلوبہ حمایت ملنے کا امکان ہے۔ جبکہ اس کے مقابلے پر عمران خان کی حکومت آرڈینینسوں پر چل رہی ہے اور اس نے پہلے دو سال میں 49 بلوں کی منظوری کے مقابلے پر 38 آرڈننس نافذ کیے ہیں۔

بائیڈن اور عمران میں ایک چیز یہ بھی مشترک ہے کہ دونوں کا انتخاب سابق حکمرانوں سے عوام کی شدید مایوسی کی صورت میں ہوا تھا لیکن عمران خان سے عوام کو جو توقعات تھیں وہ ابھی تک پوری نہیں ہوئیں۔

اب دیکھنا یہ ہو گا کہ بائیڈن کیا کرتے ہیں کیونکہ اگر ٹرمپ کا مواخذہ ناکام ہو گیا تو ٹرمپ بائیڈن کے لیے اس سے زیادہ بڑا خطرہ بن سکتے ہیں جو خطرہ عمران خان کو مریم، بلاول یا مولانا سے ہے۔

 

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر