ٹریکٹر پریڈ کی پرچم کشائی

اگر بھارت میں جمہوریت کو مضبوط کرنا ہے تو لال قلعے پر صرف اور صرف کسان کو ہی ترنگا لہرانے کا حق ہے جو اس ملک کا ان داتا ہے۔ انبانی یا اڈانی کو نہیں۔

بھارت میں کسانوں کے احتجاج میں شریک ایک خاتون (اے ایف پی)

نعیمہ مہجور کا اس ہفتے کا یہ کالم آپ ان کی آواز میں یہاں سن بھی سکتے ہیں

 


بھارت کی تقریباً 70 فیصد آبادی کسان ہے۔ ان میں سے 20 فیصد گذشتہ کئی ہفتوں سے دہلی کی سرحدوں پر احتجاج کر رہی ہے اور 26 جنوری کو لال قلعے پر اپنا پرچم اسی طرح لہرایا جس طرح وزیر اعظم نریندر مودی ہر سال 15 اگست کو لہرایا کرتے ہیں۔ فرق صرف یہ تھا کہ کسانوں نے خالصہ پرچم لہرایا جس کو بھارت کے بیشتر میڈیا نے ’آتنک واد‘ یعنی دہشت گردی سے تعبیر کیا۔ یہ خالصتان کا پرچم نہیں تھا۔

کسان کشمیری تھوڑے ہیں کہ جن کو آپ دو سال سے زائد عرصے تک گھروں میں قید کریں گے، ہر دروازے کے باہر فوجی مسلط کریں گے، ہزاروں کو رات کی تاریکی میں گرفتار کرکے بھارت کی مختلف جیلوں میں بند کریں گے اور مواصلاتی نظام کو بند کر کے ایمبولینس بلانے کا حق بھی چھینں لیں گے۔

کسانوں نے لال قلعے میں داخل ہو کر نہ صرف پولیس نہ صرف بھاگنے پر مجبور کیا بلکہ بعد میں پیاس بجھانے کے لیے انہیں پانی کی بوتلیں بھی فراہم کیں۔

کسانوں کی بھاری تعداد سکھ ہیں، ہریانہ کے جاٹھ ہیں، مہاراشٹر کے شواجی کے کٹر پیروکار ہیں۔ ان کی اکثریت گو کہ بہت غریب ہیں مگر غیرت اور منحت سے روزی روٹی کما کر اپنا اور بھارت کے کروڑوں عوام کا پیٹ پالتے ہیں۔

حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کو یقین تھا کہ جس طرح 5 اگست کو بغل میں چند فائلیں چھپا کر امت شاہ نے پارلیمان میں کشمیریوں کے حقوق سلب کرنے کا اعلان کیا تھا جس پر اکثر جماعتوں نے آواز تک نہیں اٹھائی اسی اعتماد سے زرعی اراضی سے متعلق قوانین کو بغیر کسی مزاحمت کے 70 فیصد آبادی پر مسلط کریں گے جس کے پس پردہ بظاہر سکھوں کو اپنی پیداواری صلاحیتوں اور زمینوں سے بےدخل کرنا ہے۔

بی جے پی کے بعض رہنماؤں نے کسان تحریک کے بارے میں خدشہ جتایا تھا کہ پنجاب میں خالصتان کی تحریک پھر سے جنم لے رہی ہے اور کسانوں کے روپ میں دہشت گرد دہلی میں داخل ہوگئے ہیں اور جن کی پشت پناہی پاکستان کر رہا ہے۔

ہر بار بی جے پی کا تیر نشانے پر نہیں لگ سکتا۔ پنجاب کے کسانوں کو گنے چنے صنعت کاروں کے چنگل میں پھنسا کر ان کی کسان بچاؤ تحریک کو دبانے کا منصوبہ اس بار الٹا پڑ گیا جیسے 6 جنوری کے کیپیٹل ہل پر پرتشدد ہنگامے ڈونلڈ ٹرمپ کے لیے مہنگے پڑ گئے ہیں۔ 6 جنوری اور 26 جنوری جمہوری تاریخ کے اہم ترین باب بن چکے ہیں۔

کشمیریوں کی طرح سکھ بھی کسی حد تک معاشی طور پر خود کفیل سمجھے جاتے رہے ہیں۔ زمین اور زراعت کے باعث یہ باقی ریاستوں سے معاشی طور پر قدرے بہتر حالت میں ہیں۔ دونوں قومیں بے حد جذباتی بھی ہیں جیسے معروف ناول نگار اروند اڈیگا اپنی کتاب ’وائٹ ٹائیگر‘ میں لکھتے ہیں کہ پختون، مسلمان اور سکھ جذباتی اور غصیلے ہیں۔ ان کی خود کفالت ہندوتوا کے کارکنوں کو کھٹکتی رہی ہے۔ ورنہ سکھوں کو اکسانے یا ان کی زراعت پر نئی پالیسیوں کے پیچھے اور کیا مقصد ہوسکتا ہے۔

ہریانہ کے کسان رہنما جگونت سنگھ جو ننگولائی سرحد پر کئی روز سے احتجاج میں شامل رہے ہیں کہتے ہیں کہ ’بی جے پی نئے قوانین لاگو کر کے سکھوں کو اپنے آباو اجداد کی جاگیر سے محروم کرنے کے مشن پر ہے۔ چند صنعت کاروں کے ساتھ گٹھ جوڑ کر کے ہندوتوا حکومت چار فیصد برہمنوں کے سوا سب کو غلام بنا کر گروی رکھنا چاہتی ہے تاکہ ان تاجروں کی دولت سے یہ انتخابی ’گوٹالوں‘ سے تخت دہلی پر براجمان رہے۔ ایسا ہم کرنے نہیں دیں گے جس کا اظہار دنیا نے 26 جنوری کو لال قلعے کے مناظر میں دیکھا۔‘

وزیراعظم مودی اور دوسرے وزرا زرعی قوانین کے بارے میں کہتے آ رہے ہیں کہ ان سے کسانوں کی آمدن دگنی ہوسکتی ہے اور منڈیوں تک رسائی حاصل کرنے میں وقت ضائع نہیں کرنا پڑے گا۔ دراصل دنیا میں سیاست کی ایک نئی لہر شروع ہوچکی ہے۔

امریکہ، روس اور بھارت میں حالیہ ہفتوں میں عوامی احتجاجوں کا پرتشدد سلسلہ دیکھا جا رہا ہے بلکہ اسرائیل، ہالینڈ اور پاکستان میں بھی آئے روز جلسے جلوسوں کے مناظر دیکھے جا رہے ہیں۔ پچھلے سال سیاہ فام تنظیموں کے لاکھوں افراد پر مشتمل جلسے امریکہ اور برطانیہ میں منعقد کرائے گئے۔ بیشتر تجزیاتی رپورٹوں کے مطابق جمہوریت، سیاست اور سبقت لینے کی ایک نئی دوڑ ہے جس کے باعث عوامی حلقوں میں شدید بے چینی پائی جاتی ہے۔

برطانیہ میں سیاسیات کے استاد جارج گرہم دنیا کے مختلف ملکوں میں شورش کی وجہ غیر مساوی اقتصادی صورت حال بتاتے ہیں۔ ان کا یہ بھی خیال ہے کہ چند امیر ممالک دوسرے ملکوں پر چڑھائی کرنے سے پہلے اس طرح کی افراتفری پھیلانے میں بھر پور کردار ادا کرتے آئے ہیں جیسا کہ ہم  نے خاص طور پر اسلامی ممالک میں عوامی بے چینی اور بے یقینی پیدا کرنے کی مثالیں دیکھی ہیں۔

اب یہ لہر خود ان جمہوری ملکوں کے اندر شروع ہو چکی ہے۔ خود ان کے عوام اپنی داخلی اور خارجہ پالیسیوں پر واویلا کر رہے ہیں۔ ان ملکوں میں انسانی حقوق کی تشریحات تبدیل ہو رہی ہیں۔

ٹرمپ نے غیر تارکین وطن والدین کو اپنے بچوں سے جدا کیا، اسلامی ملکوں کو دہشت گردی کے اڈے قرار دیا پھر آنکھ بند کر کے یروشلم کو اسرائیل کی جھولی میں ڈال دیا، ولاد میر پوتن کے روس میں کسی مخالف کی آواز اٹھانے سے پہلے ہی اسے زہر دے دیا جاتا ہے۔ ملک میں معیشت ابتر ہوچکی ہے۔ ڈرگ مافیا معاشرے کا حصہ بن چکا ہے۔

بھارت کے مودی نے تو حد ہی کر دی 22 کروڑ مسلمانوں کی شہریت کو متنازعہ بنا دیا، کشمیر کو ہتھیا لیا، سکھوں کو اپنی زمینوں سے بے دخل کرنے کے مشن پر رواں دواں ہیں۔

برطانیہ میں بریگزٹ کے منفی اثرات آہستہ آہستہ نمودار ہو رہے ہیں جس کے پس پردہ تارکین وطن کے لیے سخت پالیسی کا اطلاق ہے جو بیشتر یورپی ملکوں کو منظور نہیں تھا۔ لیکن حالات نے ایسا پلٹا کھایا کہ خود ان ملکوں کے اندر ایک لاوہ پک رہا ہے۔

کمزور معیشت سے حالات مزید خراب ہونے کا اندیشہ ہے پھر وائرس نے سب کی کمر توڑ کے رکھ دی ہے۔ دو طرح کی سیاست جنم لے سکتی ہے یا تو جمہوریت زمینی سطح سے شروع ہوگی یا پھر جمہوریت کی آڑ میں عامرانہ نظام مسلط ہو گا۔‘

لیکن چین میں نہ تو جمہوریت ہے اور نہ بظاہر عامرانہ نظام۔ وہاں اس طرح کی کھلبلی ابھی تو نظر نہیں آ رہی ہے جیسے بھارت یا امریکہ میں دیکھی جا رہی ہے؟ میں نے جارج گرہم سے پوچھا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

’چین نے مذہب کے ساتھ کیمنزم کو طاق پر رکھ کر اقتصادی منصوبوں پر اپنی ساری توجہ مبذول کی ہے۔ اسی کی دہائی کے اواخر میں تیان اینمن سکوائر کے بعد کوئی ایسی شورش نہیں دیکھی گئی حالانکہ ہانک کانگ میں حالات بگاڑنے پر بعض طاقتیں کافی زور لگاتی آرہی ہیں۔

چین نے اپنے مخالف ملکوں کو گلوبل مارکیٹ کے جال میں ایسے جکڑ رکھا ہے کہ جیسے برطانوی سامراج نے ایسٹ انڈیا کمپنی کی مدد سے برصغیر پر اپنی گرفت مضبوط کر دی تھی۔ موجودہ جنگ یا شورش زیادہ تر اقتصادی گرفت حاصل کرنے پر مرکوز ہے۔ ہتھیاروں اور جوہری بموں سے اب جنگیں جتنے کا وقت نہیں رہا، چین اس جنگ میں سبقت لے رہا ہے۔‘

کیا پتہ بھارت کی 70 فیصد آبادی بھی شاید دو ماہ سے اسی لیے سڑکوں پر احتجاج کر رہی ہے کہ جمہوریت کو بنیادی سطح پر قائم کیا جاسکے ورنہ چار فیصد برہمن جمہوریت کی آڑ میں 96 فیصد آبادی کو گروی بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑیں گے جیسا کہ موجودہ حالات بتا رہے ہیں۔

سکھ ہو یا راجپوت، جاٹھ ہو یا مراٹھا، بنیادی طور پر یہ سب کسان ہیں اور کسانوں نے لال قلعے پر پرچم لہرا کر اس بات کو منوا دیا ہے کہ دیش بھگت یا محب الوطن صرف وہ نہیں ہوسکتا جو جے شری رام کہہ کر اقلیتوں پر جسمانی، اقتصادی اور ذہنی تشدد کرے اور پھر لال قلعے پر چڑھ کر ترنگا لہرائے۔

اس بار 96 فیصد آبادی نے دہلی کے حصار کو توڑ کر اس وقت جمہوریت کا اصلی چہرہ دکھایا اور دنیا کو پیغام دیا کہ اگر بھارت میں جمہوریت کو مضبوط کرنا ہے تو لال قلعے پر صرف اور صرف کسان کو ہی ترنگا لہرانے کا حق ہے جو اس ملک کا ان داتا ہے۔ انبانی یا اڈانی کو نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ