نسوار اور چرس پر پانچ کوڑوں کی سزا مقرر کرنے والے منگل باغ

ضلع خیبر میں ایک عرصے تک سرگرم رہنے والی کالعدم تنظیم لشکر اسلام کے سربراہ منگل باغ کی ہلاکت کی خبریں گردش کر رہی ہیں تاہم پاکستانی حکام کی جانب سے ان کی تصدیق نہیں ہو پائی ہے۔

منگل باغ نے 2013میں ایک حکم نامہ جاری کیا جس میں کہا گیا کہ کسی بھی شخص کو نسوار لینے اور چرس پینے کی اجازت نہیں ہو گی اور اگر کسی نے اس حکم کی خلاف ورزی کی تو اس کو پانچ کوڑوں کی سزا ملے گی۔(فائل تصویر: اے ایف پی )

خیبر پختونخوا کے قبائلی اضلاع کے رہائشیوں کے لیے اس صدی کے آغاز کے کئی سال دہشت گردی کے خوف میں گزرے ہیں۔ بم دھماکوں اور حملوں  کا ڈر ایسا تھا کہ لوگ جمعے کی نماز کے لیے جانے سے بھی کتراتے تھے۔

2009 کے فوجی آپریشن سے قبل ان اضلاع پر شدت پسند تنظیموں کا راج رہا، جنہوں نے عوام پر سخت پابندیاں اور کئی احکامات نافذ کیے۔ ان تنظیموں میں کالعدم لشکر اسلام بھی شامل تھی، جس کے سربراہ منگل باغ کی افغانستان میں ہلاکت کی خبریں کچھ دنوں سے گردش کر رہی ہیں۔

 لشکر اسلام کئی سالوں تک ضلع خیبر میں سرگرم رہی۔ تنظیم کے سربراہ منگل باغ علاقے میں شرعی قانون نافذ کرنے کے حمایتی تھے۔ ان کے دور میں قتل کرنے پر تقریباً تین لاکھ روپے جبکہ گھر پر ڈش انٹینا لگانے کا جرمانہ تقریباً 60 ہزار روپے مقرر کیا گیا تھا۔

ان کی زندگی پر چھپنے والے ایک مقالے کے مطابق انہوں نے نماز نہ پڑھنے پر 600 روپے جرمانہ رکھا تھا۔ اس کے علاوہ مارکیٹ میں خواتین کو آنے کی اجازت نہیں تھی اور داڑھی رکھنے کو لازمی قرار دیا گیا تھا۔

اسی طرح منگل باغ نے 2013 میں ایک حکم نامہ جاری کیا، جس میں کہا گیا کہ کسی بھی شخص کو نسوار لینے اور چرس پینے کی اجازت نہیں ہوگی اور اگر کسی نے اس حکم کی خلاف ورزی کی تو اس کو پانچ کوڑوں کی سزا ملے گی۔

اس دور کو یاد کرتے ہوئے باڑہ کے ایک رہائشی بتاتے ہیں کہ عوام کے دلوں میں اتنا خوف تھا کہ زیادہ تر لوگ خوف کی وجہ سے لشکر اسلام کی حمایت کرتے تھے اور اس کے خلاف بات نہیں کرتے تھے۔

اپنا نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر انہوں نے بتایا کہ ایسا بھی ہوتا تھا کہ منگل باغ کی جانب سے بنائی گئی نام نہاد عدالت میں وہاں کے مقامی لوگوں کے مسائل کو سنا جاتا تھا اور ان پر فیصلے بھی صادر کیے جاتے تھے۔

ان کے بقول: ’اگر کوئی کسی جرم کا ارتکاب کرتا تھا، جس طرح اگر کسی نے نماز نہیں پڑھی یا کوئی اور جرم کیا ہو تو اس کو ایف ایم ریڈیو کے ذریعے اعلان کر کے نام لے کر بلایا جاتا تھا اور جرم کے مطابق سزا دی جاتی تھی یا جرمانہ کیا جاتا تھا۔‘

انہوں نے بتایا کہ بعض دفعہ ایسا بھی ہوا تھا کہ وہ لوگ جن کے ساتھ کوئی با اثر شخص ظلم کرتا تھا، جیسے سود مانگنا یا جائیداد پر قابض ہونا تو وہ شکایت لے کر منگل باغ کی طرف جاتے تھے تاکہ ان کا مسئلہ حل ہو سکے۔

ہلاکت کی خبریں

گذشتہ روز افغانستان کے صوبہ ننگرہار کے گورنر ضیا اللہ امیر خیل نے  اپنے تصدیق شدہ اکاؤنٹ سے ٹویٹ کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ منگل باغ افغانستان کے اچین ضلع میں ایک بارودی سرنگ کے دھماکے میں اپنے دو ساتھیوں سمیت ہلاک ہوگئے ہیں۔ تاہم ابھی تک لشکر اسلام یا پاکستانی حکام کی جانب سے اس حوالے سے کوئی بیان سامنے نہیں آیا ہے۔

ماضی میں منگل باغ کے قریب رہنے والے ایک شخص نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ انہیں بھی یہ اطلاعات موصول ہوئی ہیں اور لشکر اسلام کے  کارکنان کو بھی یہ اطلاع ملی ہے، تاہم ابھی تک تنظیم کے اہم کمانڈروں کی جانب سے ہلاکت کی تصدیق نہیں ہوئی ہے۔

ٹوئٹر پر تحریک طالبان پاکستان کے سابق ترجمان احسان اللہ احسان  کے نام سے بنائے گئے اکاؤنٹ سے منگل باغ کی ہلاکت کی تصدیق ہوئی ہے۔ انڈپینڈنٹ اردو آزادانہ طور پر اس اکاؤنٹ کے واقعی میں احسان اللہ احسان سے منسلک ہونے کی تصدیق نہیں کر سکا، تاہم ماضی میں صحافتی کام کے لیے ان سے رابطہ کرنے والے ایک صحافی نے کہا کہ یہ اکاؤنٹ احسان اللہ احسان کا ہی ہے اور انہوں نے خود ان کو (صحافی کو) منگل باغ کی ہلاکت کی تصدیق بھی کی ہے۔

اس سے  پہلے بھی منگل باغ کی ہلاکت کی خبریں سامنے آتی رہی ہیں۔ ایسی ایک آخری خبر 2016 میں سامنے آئی تھی کہ وہ افغانستان میں ایک امریکی ڈرون حملے میں مارے گئے ہیں، تاہم اس وقت اس کی بھی تصدیق نہ ہو سکی۔

کنڈیکٹر سے لشکر اسلام کے سربراہ تک کا سفر

دہشت گردی کے خلاف جنگ پر نظر رکھنے والی امریکی ویب سائٹ ’دا لانگ وار جرنل‘  پر 2008 میں منگل باغ کی زندگی پر شائع ہونے والے ایک مقالے کے مطابق منگل باغ دیگر شدت پسند تنظیموں کے سربراہوں سے الگ رویہ رکھتے تھے۔ وہ ایک طرف ریاستی رِٹ کو چیلنج نہ کرنے کی بات کرتے تھے، مگر دوسری جانب زیادہ تر معاشرتی برائیوں کے خلاف بزور بازو فیصلے مسلط کرتے تھے، جو ریاستی قوانین کے خلاف جاتے تھے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اسی مقالے کے مطابق وہ تحریک طالبان پاکستان کی مخالفت بھی کرتے تھے لیکن دوسری جانب اسی شرعی نظام کے نفاذ کی بات کرتے تھے جس کی طالبان بات کرتے تھے۔ مقالے کے مطابق منگل باغ زیادہ تر ضلع خیبر میں چرس اور دیگر نشہ آور چیزوں کے استعمال سے سختی سے منع کرتے تھے اور اس سلسلے میں انہوں نے سزائیں بھی مقرر کی تھیں۔

ان سزاؤں میں ایک نسوار لینے اور چرس پینے پر پانچ کوڑوں کی سزا مقرر تھی۔ تاہم ضلع خیبر سے تعلق رکھنے والے ایک شخص جو منگل باغ کے ماضی میں بہت قریب رہے تھے، نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ایک طرف تو سزائیں مقرر تھیں لیکن دوسری جانب انہوں نے چرس پر ایک قسم کا ’ٹیکس‘ مقرر کیا تھا اور ہر چرس پینے والے سے وہی ٹیکس لیا جاتا تھا۔

مقالے کے مطابق 47 سالہ منگل باغ کا تعلق ضلع خیبر کے سپاہ قبیلے سے تھا۔ کم عمری میں ہی ان کے والد وفات پاگئے اور اس کے بعد ان کی پرورش ان کی والدہ نے کی۔ منگل باغ نے دنیاوی تعلیم حاصل نہیں کی تھی لیکن کچھ عرصہ مدرسے میں رہے تھے تاہم وہاں سے انہوں نے علم کی کوئی سند حاصل نہیں کی تھی۔

اسی مقالے میں لکھا گیا ہے کہ منگل باغ  پہلے ٹرک کی صفائی اور بطور کنڈیکٹر کام کرتے تھے۔ وہ خود بھی کہا کرتے تھے کہ ان کے خاندان کے دو ٹرک تھے جو باڑہ اور پشاور کے روٹ پر چلتے تھے۔ ایک متوسط گھرانے سے تعلق رکھنے کی وجہ سے وہ قبائلی ملک، جو علاقے کے با اثر شخصیات ہوتے تھے، کے ہمیشہ خلاف رہے۔

مقالے کے مطابق بےروزگار نوجوانوں کو اپنی تنظیم میں شامل کرنے کے لیے وہ یہی ترغیب دیتے تھے کہ اگر وہ تنظیم میں شامل ہوجائیں تو ان کی روزی روٹی کا انتظام ہو جائے گا۔

مقالے میں کہا گیا ہے کہ منگل باغ کی سوچ بدلتی رہتی تھی کیونکہ ایک طرف وہ ’افغان جہاد‘ میں سویت یونین کے خلاف لڑے تھے جبکہ دوسری جانب اسی جنگ سے واپسی کے بعد وہ عوامی نیشنل پارٹی کا حصہ بن گئے اور اسی پارٹی کا اثر رسوخ استعمال کرکے 2001 میں وہ باڑہ ٹرانسپورٹ ایسوسی ایشن کے صدر منتخب ہوگئے تھے۔

منگل باغ کے مذہبی خیالات پہلی بار اس وقت شدت سے سامنے آئے جب انہوں نے تبلیغی جماعت کے اجلاسوں اور تبلیغ پر جانا شروع کیا۔ اسی دوران ان کی ملاقات ضلع خیبر کے ایک بااثر شخص مفتی منیر شاکر سے ہوئی جو ہنگو سے ضلع خیبر آئے تھے اور دیوبندی نظریہ فکر کا پرچار کرتے تھے۔ مفتی منیر شاکر اسی علاقے میں حرکت الاسلام نامی تنظیم کے سربراہ بھی تھے۔

مفتی شاکر ایف ایم ریڈیو پر پرچار کیا  کرتے تھے اور اسی علاقے میں رہنے والے ایک اور شخص پیر سیف الرحمان، جو بریلوی مکتبہ فکر سے تعلق رکھتے تھے، کی کھلے عام مخالفت کرتے تھے۔ سیف الرحمان علاقے میں انصار السلام کی قیادت بھی کر چکے تھے۔

مفتی شاکر سیف الرحمان سے بہت بعد میں ضلع خیبر آئے تھے لیکن وہاں پر اپنا اثر رسوخ بہت جلد قائم کیا اور حاجی نامدار نامی شخص کی سربراہی میں ’امر بالمعروف و نہی ان المنکر‘ کے نام سے تنظیم کی بنیاد رکھی جو لوگوں کو ریاستی پالیسیوں کے خلاف اکساتی تھی۔

مقالے میں تفصیل سے لکھا گیا ہے کہ کس طرح  مفتی شاکر اور سیف الرحمان کے مابین اختلاف شروع ہوگیا کیونکہ دونوں مختلف مکتبہ فکر سے تعلق رکھتے تھے۔ 2005 میں علاقے کے لوگوں کی جانب سے مفتی شاکر اور سیف الرحمان کو علاقہ بدر کرنے کا فیصلہ کیا گیا اور تب ہی ان دونوں کے چاہنے والوں کے مابین جنگ کی سی کیفیت پیدا ہوگئی۔ یوں دونوں تنظیموں کے مابین جھڑپ ہوئی جس میں کم از کم 21 افراد ہلاک ہوگئے اور مفتی شاکر اور سیف دونوں روپوش ہوگئے۔

اس کے بعد مفتی شاکر نے منگل باغ کو لشکر اسلام کا سربراہ مقرر کیا۔ لشکر اسلام اور ان کی مخالف تنظیم انصار اسلام کے مابین بعد میں شدید چھڑپیں ہوئیں جن میں مقالے کے مطابق 500 کے قریب لوگ ہلاک ہوئے، جس کے نتیجے میں حکومت نے 2006 میں خیبر میں فوجی بھیجے۔

منگل باغ کے دور میں کیے گئے آپریشن کی کوریج کرنے والے ضلع خیبر سے تعلق رکھنے والے صحافی  اسلام گل نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ منگل باغ اور انصار الاسلام کی جنگ فرقہ ورانہ باتوں پر مشتمل تھی اور وہ اپنے  بنائے ہوئے ریڈیو سٹیشن سے احکامات اور پیغامات نشر کرتے تھے۔

گل کے مطابق منگل باغ کے ریڈیو سٹیشن کو عوام میں بھی اہم سمجھا جاتا تھا، ہر کوئی اس کو سنتا تھا کہ کہیں ان کے خلاف کوئی حکم تو نہیں دیا گیا۔ اس کے علاوہ منگل باغ کے حکم ناموں سے باخبر رہنے کے لیے بھی لوگ ان کے سٹیشن کو سنتے تھے تاکہ بعد میں سزا نہ سہنی پڑے۔

اسلام گل کے مطابق: ’2009 میں حالات بہت زیادہ خراب ہوگئے اور اسی وجہ سے  پاکستان فوج  نے ’آپریشن ٹھنڈر سٹورم‘ کے نام سے آپریشن کا آغاز کردیا اور علاقے میں شدت پسندوں کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا۔‘

فوجی آپریشن کے بعد منگل باغ افغانستان فرار ہوگئے جہاں سے 2016 میں اور اب رواں ہفتے ان کی ہلاکت کی خبر ملی ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان