بے سہارا خواتین کی ’آشا‘ کے خلاف حکومتی کریک ڈاؤن کیوں؟

پاکستان میں غریب اور بے سہارا خواتین کو چھوٹے کاروبار کے لیے گزشتہ کئی سالوں سے قرضہ دینے والی بنگلہ دیشی کمپنی ’آشا‘ کے دفاتر کو  این او سی نہ ہونے پر سیل کرکے ملازمین کو گرفتار کرلیا گیا۔

آشا کے پنجاب اور سندھ کے پسماندہ اضلاع میں کُل 274 دفاتر قائم ہیں. تصویر: انڈپینڈنٹ اردو

’میں نے تین سال قبل ’آشا‘ کے مظفر گڑھ آفس سے آسان شرائط پر 40 ہزار قرض لے کر قالین بُننے کا کام شروع کیا تھا، پہلے ہی سال مجھے دو لاکھ روپے کا منافع ہوا تو میں نے قرض کی رقم واپس کرکے مزید ایک لاکھ روپے قرض حاصل کیا، اس کاروبار سے بیٹی کی شادی بھی کی اور بچوں کو تعلیم بھی دلوا رہی ہوں، لیکن اگر یہ دفاتر بند ہوگئے تو مجھ جیسی بے سہارا خواتین دوبارہ بدحال ہوسکتی ہیں۔‘

پنجاب کے ضلع مظفر گڑھ کی رہائشی بیوہ خاتون نجمہ بی بی، غریب اور بے سہارا خواتین کو چھوٹے کاروبار کے لیے گزشتہ کئی سالوں سے قرضہ دینے والی بنگلہ دیشی کمپنی ’آشا‘ کے دفاتر بند کیے جانے سے کافی پریشان نظر آئیں۔

پاکستان میں این جی اوز کی طرز پر کام کرنے والی غیر ملکی کمپنیوں کے خلاف بھی کریک ڈاؤن شروع کر دیا گیا ہے۔ حال ہی میں ’آشا‘ کے دفاتر، این جی او کا این او سی نہ ہونے پر سیل کرکے ملازمین کو گرفتار کرلیا گیا۔

یہ کارروائی سکیورٹی اداروں اور محکمہ سوشل ویلفیئر کے اداروں کی جانب سے کی گئی۔

اس حوالے سے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے نجمہ بی بی نے بتایا کہ ان کے خاوند محنت مزدوری کرتے تھے۔ 2010 میں سیلاب آیا تو ان کا گھر بھی اس کی نظر ہوگیا تھا، اس کے بعد انہوں نے اپنی مدد آپ کے تحت کچی اینٹوں کی مدد سے اپنا گھر تعمیر کیا۔ چار سال قبل ان کے شوہر کا انتقال ہوگیا تو دو بیٹیوں اور دو بیٹوں کی کفالت کی ذمہ داری میرے کندھوں پر آن پڑی۔ پھر مجھے معلوم ہوا کہ ایک کمپنی ہے، جس کا مظفر گڑھ میں دفتر ہے اور وہ آسان شرائط پر قرضہ دیتی ہے۔

نجمہ بی بی کے مطابق وہ ’آشا‘ نامی اس تنظیم کے دفتر گئیں، جہاں ان سے شناختی کارڈ کی کاپی لے کر ایک تحریری معاہدے پر انگوٹھا لگوانے کے بعد 40 ہزار قرض دے دیا گیا، جس پر 23 فیصد سالانہ منافع ادا کرنے کی شرط رکھی گئی تھی۔

آشا کے ڈپٹی چیف ایگزیکٹو آفیسر (سی ای او) ملک تصدق نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ان کی کمپنی ’آشا مائیکرو فنانس لمیٹڈ‘ کے نام سے سکیورٹی اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان (ایس ای سی پی) میں 2009 سے رجسٹرڈ ہے اور اس کمپنی کو مائیکروفنانس بینک میں تبدیل کرنے کے لیے سٹیٹ بینک آف پاکستان سے معاہدے کا عمل بھی جاری ہے۔

انہوں نے مزید بتایا کہ آشا بنگلہ دیشی کمپنی ہے اور بھارت سمیت دنیا کے 12 ممالک میں چھوٹے قرضے دینے کا کام کر رہی ہے۔ آشا کے پنجاب اور سندھ کے پسماندہ اضلاع میں کُل 274 دفاتر قائم ہیں اور یہ اب تک کُل 12 ارب روپے کے قرضے دے چکی ہے۔

ملک تصدق کے مطابق: ’ان کی کمپنی خواتین کو مالی تحفظ دینے کے لیے کام کرتی ہے اور قرضہ صرف بے سہارا اور غریب خواتین کو مکمل چھان بین کے بعد دیا جاتا ہے۔ پہلے مرحلے میں 15 سے 40 ہزار روپے سالانہ واپسی کی شرط پر دیا جاتا ہے اور اس کے بعد 40 سے دو لاکھ روپے تک قرضہ دیا جاتا ہے۔

آشا کے دفاتر کو سیل کیوں کیا جارہا ہے؟

جب انڈپینڈنٹ اردو نے صوبائی وزیر برائے سوشل ویلفیئر اجمل چیمہ سے رابطہ کیا تو انہوں نے کہا کہ انہیں اس بارے میں معلومات نہیں ہیں، تاہم غیر رجسٹرڈ این جی اوز کے خلاف کارروائی ضرور کی جارہی ہے۔

دوسری جانب پولیس تھانہ علی پور مظفر گڑھ کے ایس ایچ اوعبدالکریم نے بتایا کہ گزشتہ ہفتے مظفر گڑھ میں آشا کے دو دفاتر سیل کرکے دونوں دفاتر سے 11 ملازمین کو حراست میں لیا گیا تھا، جنہیں تفتیش کے بعد رہا کر دیا گیا لیکن دفاتر سیل ہی ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ آشا کے دفاتر میں خفیہ ایجنسیوں اور محکمہ سوشل ویلفیئر کی ہدایت پر ان کے اہلکاروں کے ساتھ چھاپے مارے گئے جبکہ دفاتر سے پکڑے گئے ملازمین سے پوچھ گچھ بھی خفیہ اداروں کے ملازمین نے کی تھی۔

ایس ایچ او کے مطابق: ’ہمیں بتایا گیا تھا کہ یہ این جی او کے دفاتر ہیں جو غیر ملکی ہے اور خواتین میں پیسے بانٹتی ہے، ان کا عمل ملکی مفاد کے خلاف ہوسکتا ہے، ان کی رجسٹریشن بھی موجود نہیں ہے، یہی وجہ ہے کہ ان کے دفاتر سے دستاویزات بھی قبضے میں لی گئی ہیں۔‘

 کارروائی غیر قانونی ہے، آشا

آشا کے ڈپٹی سی ای او ملک تصدق نے اپنی تنظیم کے دفاتر پر چھاپوں اور ملازمین کو حراست میں لیے جانے کے عمل کو ’غیر قانونی‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ان کی کمپنی ایس ای سی پی سے رجسٹرڈ ہے اور قانون کے مطابق کام کر رہی ہے۔

ملک تصدق نے واضح کیا کہ آشا این جی او نہیں بلکہ رجسٹرڈ فرم ہے، جس کا 19 مارچ 2008 کو رجسٹریشن کے بعد لائسنس حاصل کیا گیا۔ کسی وفاقی سطح پر رجسٹرڈ کمپنی کو صوبائی اداروں میں رجسٹریشن کی ضرورت نہیں لیکن اب سکیورٹی ادارے بنگلہ دیشی کمپنی ہونے کی وجہ سے بلاوجہ ہمیں تنگ کر رہے ہیں، انہوں نے مظفر گڑھ میں ہمارے دفاتر سیل کرکے ملازمین کو حراست میں لیا، جس کے بعد کمپنی کے لیگل ایڈوائزر کرنل ریٹائرڈ محمد سعید نے سکیورٹی اداروں سے ملاقاتیں کی اور حکام کو بتایا کہ ان کی کمپنی کوئی ایسا کام نہیں کرتی جو ملکی مفاد کے خلاف ہو، جس کے بعد ملازمین کو تو رہا کر دیا گیا لیکن دفاتر نہیں کھولے گئے۔

اس سارے معاملے کے حوالے سے سماجی رہنما اصغر زیدی نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کے سکیورٹی اداروں کو ابتداء سے ہی سماجی تنظیموں کے حوالے سے تحفظات رہے ہیں۔ شکیل آفریدی کی القاعدہ سربراہ اسامہ بن لادن سے متعلق اطلاعات دینے کے معاملے کو بھی این جی اوز نیٹ ورک سے جوڑنے کی کوشش کی گئی تھی۔

اصغر زیدی کے مطابق: سکیورٹی ایجنسیوں نے 2011 سے این جی اوز کو بند کرنے کا فیصلہ کیا جبکہ 2013 کے بعد سابق وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خاں کے دور میں سینکڑوں این جی اوز کو ملکی مفاد کے خلاف کام کرنے کے الزام میں بند کیا گیا اور اب بھی مختلف شعبوں میں کام کرنے والی این جی اوز کو کام کرنے سے روکا جارہا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ این جی اوز کے ذریعے پاکستان کے عوام کو مختلف شعبوں میں تربیت دینے اور بے سہارا لوگوں کی مدد کرنے کے لیے غیر ملکی اداروں کی فنڈنگ پر بھی سکیورٹی ادارے ہمیشہ سے تحفظات کا شکار ہیں، لیکن مانیٹرنگ کا نظام کافی مضبوط ہونے کے باوجود سماجی تنظیموں کے خلاف کارروائیاں حیران کن ہیں۔

زیادہ پڑھی جانے والی خواتین