دو ذہنی بیمار قیدیوں کی سزائے موت عمر قید میں تبدیل

سپریم کورٹ نے دماغی عارضے میں مبتلا دو قیدیوں کنیزاں بی بی اور امداد علی کی سزائے موت کو عمر قید میں تبدیل کر دیا ہے جبکہ تیسرے قیدی غلام عباس کے حوالے سے جیل حکام کو رحم کی نئی اپیل جمع کروانے کا حکم دیا ہے۔

(خاکے۔ ایما  انیس)

’کنیزاں باجی کی سزائے موت کو عدالت نے عمر قید میں بدل دیا ہے، ہمارے گھر والے خوش ہیں لیکن مجھے سمجھ نہیں آ رہا کہ میں کیا تاثرات دوں؟ میری ان سے دو تین بار جیل میں ہی ملاقات ہوئی تھی جس میں انہوں نے ہم سے کبھی کوئی بات نہیں کی۔ بس چپ ہمیں دیکھتی رہتی تھیں۔‘

’میں تو پیدا بھی ان کے جیل جانے کے بعد ہوا تھا البتہ میری بڑی باجی بتاتی ہیں کہ وہ بہت سادی سی لڑکی تھیں جیسے عام طور پر گاؤں کی لڑکیاں ہوتی ہیں۔ اکیلی بیٹی تھیں ماں باپ کی، ان کی والدہ تو ان کے بچپن میں انتقال کر گئیں جبکہ والد بھی کچھ عرصہ پہلے چل بسے۔ اب جیل سے رہائی ملے گی تو وہ ہسپتال جائیں گی ورنہ ہم انہیں اپنے ساتھ کمالیہ لے جائیں گے۔‘

کنیزاں کے چچا زاد بھائی منور نے انڈپینڈنٹ اردو سے یہ بات اس وقت کی جب بدھ کو سپریم کورٹ کے لارجر بینچ نے تین ذہنی بیمار قیدیوں کو سزائے موت دینے کے حوالے سے تاریخی فیصلہ سنایا۔

ان قیدیوں میں کنیزاں بی بی بھی شامل ہیں جو 30 برس سے سزائے موت کی قیدی ہیں۔ ان کے علاوہ 19 برس سے قید امداد علی کی سزائے موت کو بھی عمر قید میں تبدیل کر دیا گیا۔ تیسرے قیدی غلام عباس، جو 14 برس سے جیل میں ہیں، کے حوالے سے عدالت نے جیل حکام کو رحم کی نئی اپیل جمع کروانے کا حکم دیا ہے۔

 سپریم کورٹ لاہور رجسٹری کے جسٹس منظور احمد ملک نے پانچ رکنی لارجر بینچ کا فیصلہ سنایا۔ بینچ میں جسٹس منظور احمد ملک، جسٹس سردار طارق مسعود، جسٹس اعجاز الحسن، جسٹس مظہر عالم خان میاں خیل اور جسٹس منصور علی شاہ شامل تھے۔ پانچ رکنی بینچ نے اپنا فیصلہ گذشتہ ماہ سات جنوری کو محفوظ کیا تھا۔

عدالت کے سامنے اس مقدمے میں ذہنی بیمار قیدیوں سے متعلق تین قانونی سوالات رکھے گئے تھے: ایک، اگر کوئی ملزم یا اس کا وکیل ٹرائل کورٹ کے سامنے جرم کے وقت ملزم کے ذہنی طور پر بیمار ہونے کا دعویٰ کریں تو کیا کیا جائے؟

دو، اگر کوئی ملزم اپنی ذہنی بیماری کے باعث ٹرائل کورٹ کے سامنے اپنا دفاع کرنے سے قاصر ہو تو کیا کیا جائے۔ تین، کیا ذہنی بیمار قیدی کی سزائے موت پر عمل درآمد کیا جا سکتا ہے؟

عدالت نے اپنے فیصلے میں ایسے ذہنی بیمار قیدی، جو اپنے خلاف دی گئی سزا کا جواز یا وجہ سمجھنے سے قاصر ہو، کی سزائے موت پر عمل درآمد کو انصاف کے منافی قرار دیا ہے۔

عدالت نے وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو جیل قواعد پر نظرثانی اور ترمیم، ذہنی امراض کے ماہرین پر مشتمل میڈیکل بورڈز کے قیام اور ذہنی بیمار قیدیوں کی نگہداشت اور بحالی کے لیے فارنزک سائیکاٹرک سینٹر قائم کرنے کی بھی ہدایت کی ہے۔

کنیزاں بی بی کون ہیں؟

جسٹس پراجیکٹ پاکستان (JPP) جیلوں میں بند قیدیوں کے حقوق کے حوالے سے کام کرتا ہے۔ ان تینوں کیسز کے حوالے سے جے پی پی نے آواز اٹھائی۔ جے پی پی کے ترجمان علی حیدر حبیب نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا ’کنیزاں بی بی کا تعلق ٹوبہ ٹیک سنگھ کی تحصیل کمالیہ سے ہے۔ ان کے والد کمالیہ میں زمین داروں کی زمینوں کی رکھوالی کا کام کرتے تھے۔ گھر کے حالات کے سبب کنیزاں کو کسی زمین دار کے ہاں گھر پر کام کرنا پڑا۔

’اس زمیندار خاندان کی زمینوں کا خاندانی جھگڑا چل رہا تھا اور ان کے خاندان کے چھ افراد، جن میں میاں بیوی اور ان کے بچے شامل تھے، قتل ہو گئے، جس کا الزام کنیزاں پر لگا۔ کنیزاں کو ٹوبہ ٹیک سنگھ کے پیر محل پولیس سٹیشن میں کئی روز تک زیر حراست رکھا گیا اور تشدد کا نشانہ بھی بنایا گیا تاکہ وہ اعتراف جرم کر لیں۔

علی حیدر کے مطابق غالب امکان یہی ہے کہ اسی تشدد کی وجہ سے ان کی ذہنی حالت بری طرح سے متاثر ہوئی۔ ’کنیزاں نے جھنگ، لاہور کی کوٹ لکھپت جیل، اڈیالہ جیل کے علاوہ دس سال سے زائد عرصہ پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف مینٹل ہیلتھ میں گزارا۔‘

علی حیدر نے مزید بتایا کہ 1989 میں کنیزاں کا کیس رجسٹر ہوا، 1991 میں سزائےموت سنائی گئی تھی، 1994 میں ہائی کورٹ نے ان کی سزائے موت کی تصدیق کی، سپریم کورٹ نے 1999 میں ان کی اپیل مسترد کی جبکہ رحم کی اپیل 2000 میں مسترد ہوئی۔

’کنیزاں کو 2006 میں پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف مینٹل ہیلتھ منتقل کیا گیا۔ کنیزاں کے معاملے میں 2018 میں سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے ازخود نوٹس لیتے ہوئے معاملہ پانچ رکنی لارجر بینچ کو بھیجنے کی ہداہت کہ تھی۔‘

ان کا کہنا ہے کہ کنیزاں کی ذہنی حالت کے حوالے سے میڈیکل بورڈ تصدیق کر چکے ہیں کہ وہ شیزوفرینیا کا شکار ہیں۔ دوسرے قیدیوں کے حوالے سے جے پی پی کے ترجمان نے بتایا کہ امداد علی گذشتہ 19 برس سے سزائے موت کے قیدی ہیں، ان کا تعلق وہاڑی سے ہے۔ ’انہیں 2002 میں سزائے موت دی گئی، 2008 میں ہائی کورٹ نے اس سزا کو کنفرم کیا جبکہ سپریم کورٹ نے ان کی اپیل 2015 میں جبکہ رحم کی اپیل 2016 میں مسترد کر دی گئی۔

 

’52 سالہ امداد علی کے مقدمے میں 2016 میں سپریم کورٹ میں نظر ثانی کی درخواست دائر کی گئی تھی۔ امداد کے اہل خانہ کے مطابق مقدمے سے پہلے امداد علی میں ذہنی بیماری کی علامات موجود تھیں۔ 2012 میں ان میں شیزوفرنیا کی تشخیص ہوئی۔‘

علی حیدر نے تیسرے قیدی غلام عباس کے حوالے سے بتایا کہ وہ گذشتہ 14 برس سے سزائے موت کے قیدی ہیں، انہیں 2006 میں سزائے موت سنائی گئی۔ ہائی کورٹ نے 2010 میں ان کی سزائے موت کنفرم کی۔ سپریم کورٹ نے 2016 میں ان کی اپیل اور 2018 میں ان کی نظرثانی اپیل مسترد کرتے ہوئے سزائے موت برقرار رکھی۔ اپریل 2019 میں ان کی رحم کی اپیل بھی مسترد کر دی گئی۔

ان کی عمر اس وقت اڑتیس برس ہے۔ سابق چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے 2019 میں ان کی سزائے موت پر عملدرامد روکا تھا۔ بعد ازاں ان کا مقدمہ لارجر بینچ کو منتقل کرنے کی ہدایت کی اور بدھ کو ان کی رحم کی اپیل پھر سے صدر مملکت کو بھجوانے کا حکم دیا گیا ہے۔

کیا موت کی سزا عمرقید میں تبدیل ہونے کے بعد ان قیدیوں کو پھر جیل میں رہنا پڑے گا؟

کنیزاں بی بی اور دیگر قیدیوں کی عمر قید کے حوالے سے علی حیدر کا کہنا ہے کہ کنیزاں پہلے ہی 30 سال جیل میں گزار چکی ہیں جو 25 سال سے پانچ سال زیادہ ہے، عدالتی حکم کے مطابق کنیزاں کو ابھی پنجاب مینٹل ہیلتھ انسٹی ٹیوٹ بھیج دیا گیا ہے۔

’ایک صورت یہ بھی ہے کہ دونوں عمر قید کے قیدیوں کو پنجاب مینٹل ہیلتھ انسٹی ٹیوٹ میں رکھا جائے گا اور قانون کے مطابق اگر ان کی سزا پوری ہو چکی ہو گی تو ایک میڈیکل بورڈ ان کی ذہنی حالت کو دوبارہ جانچے گا اور پھر وہ بتائیں گے کہ کیا انہیں رہائی دینی ہے یا نہیں کیونکہ وہ یہ بھی دیکھیں گے اگر کسی قیدی کی ذہنی حالت ایسی ہے کہ وہ کسی کو نقصان پہنچا سکتا ہے تو کیا اسے اس طرح چھوڑ دینا صحیح ہے یا نہیں؟ اگر انہیں جیل سے رہائی مل بھی جاتی ہے تو انہیں علاج کے لیے مینٹل ہسپتال میں رکھنا پڑے گا۔‘

پاکستان کی جیلوں میں ذہنی بیماریوں میں مبتلا کتنے قیدی ہیں؟

جے پی پی کے ترجمان علی حیدر حبیب نے تازہ ترین اعدادو شمار کے حوالے سے بتایا کہ کم سے کم 600 ایسے قیدی پاکستان کی مختلف جیلوں میں ہیں جنہیں کوئی نہ کوئی ذہنی بیماری لاحق ہے مگر ان کے خیال میں ایسے قیدیوں کی تعداد اس سے بھی زیادہ ہو گی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

’ان تینوں کیسز میں بھی ہم نے دیکھا کہ ان کی ذہنی بیماری کی تشخیص جیل میں ہی ہوئی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ  نفسیاتی و دماغی امراض کے حوالے سے لوگ بات نہیں کرتے۔‘

علی کا کہنا ہے کہ ایسے قیدی بھی ہوں گے جنہیں ذہنی بیماریوں کے باوجود سزائے موت سنائی گئی ہوگی۔ ’ہمارے پاس اس کی ایک مثال منیر حسین ہیں، انہیں 2014 میں تب سزائے موت ہوئی جب حکومت نے سزائے موت سے پابندی اٹھائی تھی۔

’منیر حسین ذہنی طور پر اتنے بیمار تھے کہ انہیں بالکل سمجھ نہیں تھی کہ ان کے مقدمے میں کیا ہو رہا ہے اور تو اور جب ان کی پھانسی سے پہلے آخری ملاقات میں گھر والے ان سے ملنے آئے تو وہ انہیں بھی پہچان نہیں پائے تھے۔

’میرے خیال میں بدھ کو آنے والے عدالتی فیصلہ ایک مثال قائم کرے گا جس سے صرف ان تین قیدیوں کو نہیں بلکہ آئندہ بھی ایسے قیدیوں کو فائدہ ہوگا۔‘

جے پی پی کی سربراہ سارہ بلال کا کہنا ہے کہ یہ ایک تاریخی فیصلہ ہے جو ان کی دہائیوں پرانی جدوجہد کی حمایت کرتا ہے، عدالتوں کو ملزمان کی ذہنی بیماریوں کو ایک غیر معمولی صورت حال کے طور پر لینا چاہیے۔

’ہم معزز ججوں کے شکر گزار ہیں کہ انہوں نے قابل ترس قیدیوں کے حقوق کا تحفظ کیا اور پاکستان کی طرف سے انسانی حقوق کے لیے کی جانے والی بین الاقوامی کوششوں کا اعادہ کیا۔

’یہ بہت بڑی جیت ہے اور ہم اس جیت کو ماہر نفسیات ڈاکٹر ملک حسین مبشر اور ہمارے ایک پہلے قیدی خضر حیات جنہیں سزائے موت کا حکم جاری کیا گیا تھا لیکن وہ اس سے پہلے ہی جیل میں بیماری کی وجہ سے انتقال کر گئے تھے، ان کے نام کرتے ہیں۔'

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان