سینیٹ ویڈیو: ’اسد قیصر، پرویز خٹک کے خلاف تحقیقات نہیں ہوں گی‘

2018 کے سینیٹ انتخابات میں پیسوں کی مبینہ لین دین سے متعلق ویڈیو کی تحقیقاتی کمیٹی میں شامل وفاقی وزیر فواد چوہدری کہتے ہیں کہ ’پرویز خٹک پر پیسوں کی تقسیم کے الزامات میں کوئی حیثیت نہیں ہے اس لیے ان کے اور اسد قیصر کے خلاف کوئی تحقیقات نہیں ہوں گی۔‘

فواد چوہدری کہتے ہیں کہ جن لوگوں نے پیسے لیے، ضمیر بیچا اور پھر جھوٹ بھی بولا ان کے الزامات کی کوئی حیثیت نہیں ہے (فائل تصویر: ٹوئٹر)

وفاقی وزیر برائے سائنس و ٹیکنالوجی فواد چوہدری نے کہا ہے کہ 2018 کے سینیٹ انتخابات میں مبینہ طور پر پیسوں کی لین دین سے متعلق ویڈیو سکینڈل میں سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر اور وفاقی وزیر دفاع پرویز خٹک کے خلاف تحقیقات نہیں کی جائیں گی۔

 نجی ٹی وی چینل جیو نیوز کے ٹاک شو ’آج شاہ زیب خانزادہ کے ساتھ‘ میں بات کرتے ہوئے فواد چوہدری، جو ویڈیو سکینڈل کی تحقیقات کرنے والی کمیٹی میں شامل ہیں، نے کہا کہ پاکستان کے عوام اسد قیصر اور پرویز خٹک اور ان الزام لگانے والوں کو بھی جانتے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا: ’جن لوگوں نے پیسے لیے، ضمیر بیچا اور پھر جھوٹ بھی بولا ان کے الزامات کی کوئی حیثیت نہیں ہے، پرویز خٹک پر پیسوں کی تقسیم کے الزامات میں کوئی حیثیت نہیں ہے اس لیے ان کے اور اسد قیصر کے خلاف کوئی تحقیقات نہیں ہوں گی۔‘

انہوں نے واضح کیا کہ کمیٹی 2018 میں سینیٹ انتخابات سے پہلے ووٹوں کی مبینہ خرید و فروخت سے مستفید ہونے والوں کا پتہ لگائے گی اور دیکھے گی کہ یہ کام (پیسوں کی لین دین) کہاں ہوا۔

یاد رہے کہ وزیر اعظم عمران خان نے جمعرات کو مذکورہ ویڈیو سکینڈل کا نوٹس لیتے ہوئے معاملے کی تحقیقات کے لیے تین رکنی کمیٹی تشکیل دی تھی۔

وزیر اعظم ہاؤس سے ’سینیٹ انتخابات میں رشوت/ووٹ کی خریداری‘ کے موضوع کے ساتھ جاری ہونے والے اعلامیے کے مطابق تین وفاقی وزرا پر مشتمل تحقیقاتی کمیٹی فوجداری اور انتخابات سے متعلق قوانین کی روشنی میں اقدامات تجویز کرے گی۔

تحقیقاتی کمیٹی میں وفاقی وزیر برائے سائنس اینڈ ٹیکنالوجی فواد چوہدری، وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق شیریں مزاری اور وزیراعظم کے مشیر برائے احتساب و داخلہ مرزا شہزاد اکبر شامل ہیں، جو ایک مہینے میں رپورٹ تیار کریں گے۔

ویڈیو کے منظر عام پر آنے کے بعد اس میں نظر آنے والےعبید اللہ مایار نے الزام لگایا ہے کہ سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر اور وفاقی وزیر پرویز خٹک کو اس سارے معاملے کا علم تھا اور پیسوں کی لین دین پشاور میں سپیکر ہاؤس میں ہوئی تھی، تاہم پرویز خٹک اور اسد قیصر نے الزام کی تردید کی ہے۔

کمیٹی کیا کرے گی؟ 

دلچسپ بات یہ ہے کہ کمیٹی کی تشکیل سے متعلق سرکلر میں اس کے ٹرمز آف ریفرنس کا کہیں بھی ذکرموجود نہیں ہے، جو یہ واضح کرتے ہیں کہ کوئی بھی تحقیقاتی کمیٹی یا کمیشن کیسے کام کرے گا اور اس کی حدود کیا ہوں گی۔ 

وزیر اعظم عمران خان نے نجی ٹی وی چینل ’اے آر وائی‘ کو دیے گیے ایک انٹرویو میں کہا کہ کمیٹی تحقیقات کے لیے حکومتی اداروں کی مدد لے سکتی ہے، اور اس سلسلے میں انہوں نے وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) اور قومی احتساب بیورو (نیب) کا ذکر کیا۔ 

انہوں نے کہا کہ سفارشات آنے کے بعد فیصلہ کیا جائے گا کہ معاملہ الیکشن کمیشن کو بھیجا جائے یا مزید تحقیقات کے لیے ایف آئی اے یا نیب کے حوالے کیا جائے۔ 

تحریک انصاف کی رکن قومی اسمبلی کنول شوزب نے کہا کہ وفاقی وزرا پر مشتمل تحقیقاتی کمیٹی کا کام بہت مختصر ہے لیکن ان کی سفارشات بہت موثر ثابت ہوں گی۔ 

انہوں نے کہا کہ کمیٹی کو صرف مستقبل میں کارروائی کے سلسلے میں سفارشات مرتب کرنے کا کام سونپا گیا ہے، جن کی روشنی میں آگے بڑھا جائے گا۔ 

’اپنے ہی لوگوں کی تحیقات کیسے کریں گے؟‘

کمیٹی کے تشکیل ہوتے ہی اس پر تنقید بھی شروع ہو گئی ہے جس میں سب سے بڑا اعتراض ہے کہ تحریک انصاف حکومت کے وزرا کیسے اپنی ہی جماعت کے ایم پی ایز کے خلاف انضباتی کارروائی کے لیے تحقیقات کر سکتے ہیں؟ 

سپریم کورٹ آف پاکستان کے وکیل عارف چوہدری کا کہنا تھا کہ حکومت کو خود اپنے وزیروں کے ذریعے تحقیقات کروانے کے بجائے یہ معاملہ براہ راست ایف آئی اے یا نیب کے حوالے کر دینا چاہیے تھا۔ 

انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وفاقی وزرا کیسے اپنی ہی جماعت کی بھاری بھرکم شخصیات سے تحقیقات کر سکیں گے اور کیسے اپنے ہی لوگوں کے خلاف کارروائی کی سفارش دے پائیں گے؟ 

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ان کے خیال میں حکومت کو اس معاملے کی تحقیقات کے لیے جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم (جے آئی ٹی) بنانا چاہیے تھی جس میں مختلف محکموں سے ماہرین شامل ہوتے جو شفاف انداز میں معاملات کی تہہ تک پہنچنے کی کوشش کرتے۔ 

عارف چوہدری کا کہنا تھا کہ ویڈیو کا فارنزک کر کے سچائی جانی جا سکتی ہے، تاہم یہ کام صرف اس میدان کے ماہرین ہی کر سکتے ہیں۔ 

سابق سیکریٹری الیکشن کمیشن نے کہا کہ یہ ایک ہائی پروفائل کیس ہے اور اس کی تحقیقات کسی ریٹائرڈ جج کے ذریعے بھی کروائی جا سکتی تھی۔ 

دوسری طرف سابق سیکریٹری الیکشن کمیشن آف پاکستان کنور دلشاد کے خیال میں ویڈیو کا تعلق چونکہ سینیٹ انتخابات میں مبینہ ہارس ٹریڈنگ اور ووٹوں کی خریدو فروخت سے ہے اس لیے اس معاملے کو براہ راست الیکشن کمیشن کو بھیجا جانا چاہیے تھا۔ 

ان کا کہنا تھا: ’حکومت کو چاہیے تھا کہ تمام شواہد اور ثبوت الیکشن کمیشن کو بھیجتی اور الیکشنز ایکٹ 2017 کے تحت کارروائی کی استدعا کرتی۔‘ 

انہوں نے کہا کہ آئین کے آرٹیکل 220 کے تحت الیکشن کمیشن کسی بھی سرکاری محکمے کی خدمات حاصل کر سکتا ہے اور اس معاملے میں بھی ایسا ہی ہوتا۔ 

کنور دلشاد کا خیال تھا کہ حکومت کے قانونی مشیران اس نقطے کو شاید سمجھ نہیں پائے کہ کمیٹی اراکین جن کا تعلق تحریک انصاف سے ہے وہ اپنی ہی پارٹی کے لوگوں کے خلاف تحقیقات کیسے کر سکیں گے؟ 

پاکستان مسلم لیگ ن کے رہنما ملک احمد نے ویڈیو سکینڈل سے متعلق تحقیقات کے لیے پارلیمانی کمیٹی بنانے کی تجویز دی۔ 

الزامات ثابت ہوئے تو؟ 

الیکشن کمیشن کے سابق سیکریٹری کنور دلشاد نے کہا کہ اگر کسی بھی تحقیق کے نتیجے میں ثابت ہو جاتا ہے کہ 2018 کے سینیٹ انتخابات میں ووٹوں کی خریدو فروخت ہوئی ہے تو چئیرمین سینیٹ خریدے ہوئے ووٹوں کی مدد سے کامیاب ہونے والے سنینیٹرز کے خلاف ریفرنس الیکشن کمیشن کو بھیجیں گے۔ 

انہوں نے مزید کہا کہ الیکشن کمیشن اس ریفرنس کی شنوائی کرے گا اور کرپشن ثابت ہونے کی صورت میں مذکورہ اراکین کو نا اہل قرار دے سکتا ہے۔ 

کنور دلشاد کا مزید کہنا تھا کہ الیکشن ایکٹ 2017 میں انتخابات میں غلط یا غیر قانونی طریقوں سے ووٹ حاصل کرنے کے تمام طریقوں کو بیان کیا گیا ہے اور الیکشن کمیشن ان اراکین کے خلاف مقدمہ سیشن کورٹ کو بھیج سکتا ہے، جو وہاں بھی ثابت ہونے کی صورت میں غیر قانونی ووٹ حاصل کرنے والوں کو تین سے پانچ سال کی قید ہو سکتی ہے۔ 

انہوں نے کہا کہ ووٹوں کی خریداری کے لیے پیسے دینے والا اور جس کے گھر پر ادائیگی کی وصولی ہوئی ہو وہ بھی برابر کے شریک مجرم تصور ہوں گے اور ان کے خلاف بھی قانون کے تحت کارروائی عمل میں آ سکتی ہے۔ 

سکینڈل ہے کیا؟ 

چند روز قبل ایک ویڈیو منظر عام پر آئی جس میں پاکستان تحریک پاکستان اور بعض دوسری جماعتوں کے کچھ اراکین خیبر پختونخوا اسمبلی میں پیپلز پارٹی کے ایک رہنما سے بھاری نقد رقوم وصول کرتے ہوئے دیکھے جا سکتے ہیں، جو مبینہ طور پر 2018 کے سینیٹ انتخابات میں ووٹ دوسری پارٹی کے حق میں استعمال کیے جانے کی قیمت تھی۔ 

ویڈیو میں تحریک انصاف کے خیبر پختونخوا میں وزیر قانون سلطان محمد خان بھی دیکھے جا سکتے ہیں، جنہیں ویڈیو جاری ہونے کے بعد اپنے عہدے سے استعفیٰ دینا پڑا۔ 

ویڈیو میں تحریک انصاف کے ایم پی ایز سردار ادریس، مہراج ہمایوں اور دینا خان اور پیپلز پارٹی کے محمد علی باچا کو دیکھا جا سکتا ہے۔ 

تحریک انصاف نے 2018 میں سینیٹ انتخابات میں ووٹوں کی خرید و فروخت میں مبینہ طور پر ملوث اپنے 20 اراکین پختون خوا اسمبلی کو پارٹی سے نکال دیا تھا۔ 

ویڈیو میں نظر آنے والے اراکین اسمبلی نے سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر اور وفاقی وزیر پرویز خٹک کو بھی سکینڈل میں ملوث کیا ہے تاہم تحریک انصاف کے دونوں رہنما الزامات کی تردید کر چکے ہیں۔ 

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان