میانمار میں اقتدار پر قبضہ کرنے والے جنرل من انگ کون ہیں؟

64 سالہ فوجی جنرل نے کیڈٹ کے طور پر فوج میں شمولیت کے بعد اپنا پورا کیریئر فوج میں گزارا۔

جنرل من انگ نے ینگون یونیورسٹی سے قانون کی تعلیم حاصل کر رکھی ہے (اے ایف پی)

میانمار کی فوج کا سرکاری نام ’تتمادو‘ ہے، جس کے دور حکومت میں ملک میں ترقی کا عمل بتدریج جاری رہا۔ ملکی فوج کے سربراہ کی حیثیت سے جنرل من اونگ لائنگ گذشتہ دہائی کے دوران اور اس سال فروری میں ہونے والی فوجی بغاوت سے پہلے بھرپور سیاسی طاقت کے مالک تھے۔

 بی بی سی کے مطابق انہوں نے میانمار میں طویل فوجی آمریت کے بعد جمہوری حکومت کے قائم ہونے کے باوجود فوج کی طاقت کو کامیابی سے بحال رکھا لیکن نسلی اقلیتوں کے خلاف ان کے مبینہ کردار پر انہیں پابندیوں اور مذمت کا سامنا کرنا پڑا۔

اب جب میانمار میں ان کی سرپرستی میں دوبارہ فوج اقتدار پر قبضہ کر چکی ہے تو من اونگ لائنگ ملک میں اپنے اختیار اور کردار کو مزید بڑھانے پر آمادہ دکھائی دیتے ہیں۔

64 سالہ فوجی جنرل نے کیڈٹ کے طور پر فوج میں شمولیت کے بعد اپنا پورا کیریئر فوج میں گزارا۔ قانون کے سابقہ طالب علم کے طور پر وہ دفاعی سروسز اکیڈمی میں داخلے کے لیے 1974 میں اپنی تیسری کوشش میں کامیاب ہو پائے تھے۔

انہوں نے ینگون یونیورسٹی سے قانون کی تعلیم حاصل کر رکھی ہے۔ زیادہ نمایاں نہ رہنے والے یہ انفنٹری اہلکار باقاعدگی سے ترقیاں پاتے رہے اور اگلے عہدوں پر پہنچتے رہے اور 2009 میں بیورو آف سپیشل آپریشنز ٹو کے کمانڈر مقرر کیے گئے۔

اس عہدے پر وہ شمال مشرقی میانمار میں چینی سرحد کے ساتھ نسلی اقلیت سے تعلق رکھنے والے ہزاروں پناہ گزینوں کی نقل مکانی کا باعث بننے والے آپریشنز کی نگرانی کرتے رہے۔

اپنے ماتحت اہلکاروں کے خلاف قتل، ریپ اور آگ لگانے کے الزامات کے باوجود من اونگ لائنگ کی ترقی جاری رہی اور وہ اگست 2010 میں جوائنٹ چیف آف سٹاف بن گئے۔

ایک سال سے بھی کم عرصے میں انہیں سینیئر جرنیلوں کے ہوتے ہوئے فوج کے سب سے بڑے عہدے کے لیے منتخب کر لیا گیا اور مارچ 2011 میں انہوں نے یہ عہدہ سنبھال لیا۔

جب من اونگ لائنگ فوج کے سربراہ بنے تو مصنف ہلا اوو نے ،جو لائنگ کو بچپن سے جانتے تھے، انہیں ’وحشی برمی فوج کا ایک جنگ آزمودہ جنگجو‘ قرار دیا لیکن انہوں نے انہیں ایک ’سنجیدہ دانش ور اور شریف انسان‘ بھی قرار دیا۔

ان کے سیاسی کردار اور سوشل میڈیا پر مقبولیت میں فوج کی حمایت یافتہ یونین سولیڈریٹی اینڈ ڈیویلپمنٹ پارٹی کی حکومت میں اضافہ ہوا۔ 2016 میں جب آنگ سان سوچی کی نیشنل لیگ فار ڈیموکریسی نے حکومت بنائی تو جنرل من اونگ لائنگ کو بھی سوچی کے ساتھ کام کرتے دیکھا گیا۔

اس تبدیلی کے باوجود انہوں نے میانمار کی پارلیمان میں فوج کی 25  فیصد نشستوں کو یقینی بنایا جو سکیورٹی کے حوالے سے کیے جانے والے معاملات اور کابینہ کے فیصلوں میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ انہوں نے سوچی کی جماعت کی جانب سے فوج کی طاقت کو محدود کرنے کے لیے اقدامات کی بھی مخالفت کی۔

17-2016 میں میانمار کی فوج نے اقلیتی روہنگیا مسلمانوں کے خلاف رخائن کی ریاست میں کریک ڈاؤن کا آغاز کیا، جس کے باعث روہنگیا کی بڑی تعداد کو میانمار سے نقل مکانی کرنی پڑی۔

 عالمی سطح پر فوجی سربراہ کی مذمت کی گئی اور ان پر مبینہ ’نسل کشی‘ کا الزام عائد کیا گیا۔ اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل نے میانمار کی فوج کی اعلیٰ قیادت، جن میں فوج کے سربراہ بھی شامل تھے، کے خلاف تحقیقات کا مطالبہ کیا۔

انسانی حقوق کونسل کے اس بیان کے بعد فیس بک انتظامیہ نے ان کا اکاؤنٹ ڈیلیٹ کر دیا جب کہ ان کے ساتھ باقی افراد کے اکاؤنٹس بھی معطل کر دیے گئے۔ امریکہ کی جانب سے بھی ان پر 2019 میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر پابندیاں عائد کی گئی جب کہ 2020 میں برطانیہ نے بھی ان پر پابندیاں عائد کرنے کا اعلان کیا۔

نومبر 2020 میں این ایل ڈی کی الیکشن میں یک طرفہ فتح کے بعد فوج کی حمایت یافتہ جماعت یو ایس ڈی پی نے الیکشن میں دھاندلی کے الزامات عائد کیے، جس کے بعد حکومت اور فوج کے درمیان اختلافات کی خبریں جنم لینے لگیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

24 جنوری کو من اونگ لائنگ نے آئین پر عمل نہ کیے جانے کی صورت میں اسے معطل کرنے کا انتباہ دیا۔ اگرچہ 30 جنوری کو ان کے دفتر نے اس بیان کو واپس لینے کی کوشش کی لیکن یکم فروری کو میانمار کی فوج نے آنگ سان سوچی، صدر ون مائنٹ سمیت اعلیٰ سیاسی قیادت کو حراست میں لیتے ہوئے ملک میں ایک سال کے لیے ایمرجنسی نافذ کرنے کا اعلان کر دیا۔

جنرل لائنگ نے کمانڈر ان چیف کے طور پر تمام اختیارات سنبھال لیے اور انتخابی اصلاحات کو اپنی ترجیح کے طور پر متعارف کروایا۔ جنرل لائنگ جنہوں نے رواں سال جولائی میں 65 سال کی عمر میں اپنے عہدے سے سبکدوش ہونا تھا، اب انہیں مزید ایک سال تک اپنے عہدے پر رہنے کا جواز مل گیا ہے۔

دی انڈپینڈنٹ کے مطابق اپنے پہلے نشری خطاب میں جنرل من اونگ لائنگ نے دعویٰ کیا کہ فوج کی موجودہ حکومت فوج کے سابقہ دور اقتدار سے مختلف ہو گی۔

ان کا کہنا تھا کہ ’میانمار کو حقیقی اور منظم جمہوریت کی جانب لوٹایا جائے گا اور انتخابی اصلاحات کے بعد انتخابات کروائے جائیں گے اور اقتدار فاتح کے سپرد کر دیا جائے گا۔‘

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا