میانمار میں فوجی بغاوت اور سیاسی حکومت کے خاتمے کے خلاف مظاہرین کا احتجاج جاری ہے۔ دارالحکومت نیپیداو میں سوموار کو ہونے والے مظاہرے میں شامل مظاہرین پر پولیس نے پانی والی توپ کا استعمال بھی کیا۔
علاقے کی رہائشی کیاو کیاو نے، جو مظاہرے میں شریک تھے، اے ایف پی کو بتایا کہ ’پولیس نے سڑک کو صاف کرنے کے لیے پانی والی توپ کا استعمال کیا۔ ہم فوجی آمریت کے خاتمے کے لیے مظاہروں میں شامل ہو رہے ہیں۔‘
میانمار میں یہ مظاہرے تین دن سے جاری ہیں جبکہ ملک بھر میں مزدوروں نے ملک گیر ہڑتال کا اعلان بھی کر دیا ہے۔ ہڑتال کرنے والے مزدوروں نے ملک میں جمہوریت کی واپسی اور برطرف رہنما آنگ سان سوچی کی رہائی کا مطالبہ کیا ہے۔
ہفتے کے اختتام پر ہونے والے مظاہرے عمومی طور پر پرامن تھے لیکن مقامی میڈیا کے مطابق جنوب مشرقی شہر میاوڈے میں پولیس نے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے وارننگ شاٹس بھی فائر کیے۔
دوسری جانب سوچی کی حکومت کی برطرفی پر دنیا بھر کے ممالک کا رد عمل ابھی بھی جاری ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق آسٹریلیا کے وزیر خارجہ مارییس پین نے میانمار کے حکام سے سوچی کے معاشی مشیر شون ٹرنیل کی فوری رہائی کا مطالبہ کیا۔
ہفتے کو شون ٹرنیل نے سوچی کی منتخب حکومت کی برطرفی کے بعد اپنی گرفتاری کی تصدیق کی تھی۔ وہ یکم فروری کو ہونے والی فوجی بغاوت کے بعد گرفتار کیے جانے والے پہلے غیر ملکی ہیں۔
ماریس پین کے مطابق آسٹریلیا نے اس حوالے سے میانمار کے سفیر کو طلب کیا ہے۔ اتوار کو صحافیوں سے بات کرتے ہوئے پین کا کہنا تھا کہ 'ہم نے آسٹریلوی شہری پروفیسر ٹرنیل کی میانمار میں فوری رہائی کا مطالبہ کیا ہے۔ ہمارا سفارت خانہ پروفیسر ٹرنیل کو ہر قسم کی مدد فراہم کر رہا ہے۔'