میانمار: 'فوجی بغاوت ناکام بنانے کی ہر ممکن کوشش کریں گے'

اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیریش کا کہنا ہے کہ جہوریت کی بحالی کے لیے میانمار پر دباؤ ڈالنے کے لیے تمام اہم فریقین اور بین الاقوامی برادری کو متحرک کریں گے۔

میانمار میں فوجی بغاوت کے بعد بڑی تعداد میں لوگ فوج کے حق میں سڑکوں پر نکل آئے ہیں (اے ایف پی)

اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیریش نے میانمار میں فوجی بغاوت کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ اس بغاوت کو ناکام بنانے کے لیے ہر ممکن کوشش کریں گے۔

میانمار کی فوج پیر کو سویلین حکومت کا تختہ الٹ کر اقتدار پر قابض ہو گئی تھی جب کہ فوجیوں نے چھاپوں کے دوران ملک میں جمہوریت کی علمبردار آنگ سان سوچی اور دیگر سویلین رہنماؤں کو حراست میں لے لیا تھا۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق بدھ کو امریکی اخبار ’واشنگٹن پوسٹ‘ سے بات کرتے ہوئے اقوام متحدہ کے سربراہ نے کہا: ’ہم تمام اہم فریقین اور بین الاقوامی برادری کو متحرک کرنے کی ہر ممکن کوشش کریں گے تاکہ میانمار پر دباؤ ڈال کر اس بغاوت کو ناکام بنایا جا سکے۔‘

انہوں نے مزید کہا: ’بغاوت کے بعد عام طور پر اقتدار کی منتقلی کے لیے طویل عرصے بعد ہونے والے انتخابات کے نتائج کو تبدیل کرنے اور عوام کی مرضی کے خلاف اقدامات قطعی طور پر ناقابل قبول ہیں۔‘

جب 75 سالہ سوچی پر عائد فرد جرم کے بارے میں پوچھا گیا تو گتیریش نے کہا:  ’اگر ہم ان پر کسی جرم کا الزام لگا سکتے ہیں تو وہ یہ ہے کہ وہ فوج کے بہت قریب تھیں۔ تو کیا فوج کی حمایت کرنا ان کی غلطی تھی؟‘

انہوں نے مزید کہا: ’مجھے امید ہے کہ میانمار میں جمہوریت ایک بار پھر بحال ہو سکے گی لیکن اس کے لیے تمام قیدیوں کو رہا کرنا ہوگا اور آئین کو دوبارہ بحال کرنا ہوگا۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اقوام متحدہ کے سربراہ نے اس پر بھی افسوس کا اظہار کیا کہ برطانیہ کی جانب سے بلائے گئے سلامتی کونسل کے اجلاس میں رکن ممالک میانمار میں ہونے والی بغاوت سے متعلق مشترکہ بیان  پر اتفاق کرنے میں ناکام رہے۔

مذاکرات کے لیے ہفتے کے شروع میں تجویز کردہ ایک مسودے کے متن کے مطابق سلامتی کونسل کو بغاوت پر گہری تشویش کا اظہار اور اس اقدام کی مذمت کرنا تھی اور فوج سے غیر قانونی طور پر حراست میں لیے گئے افراد کو فوری طور پر رہا کرنے کا مطالبہ کرنا تھا۔

کونسل کو یہ مطالبہ بھی کرنا تھا کہ ملک میں نافذ ایک سالہ ایمرجنسی کو منسوخ کیا جائے۔ تاہم منگل کی شام تک کونسل کے 15 ارکان کے درمیان اس پر اتفاق رائے قائم نہیں ہوا تھا۔

دوسری جانب فوج کے اقتدار پر قابض ہونے کے چند دن بعد  میانمار میں فیس بک سروسز منقطع کر دی گئی ہیں۔

روئٹرز کے مطابق وزارت مواصلات اور معلومات کی جانب سے رات گئے آن لائن پوسٹ کیے گئے ایک خط میں کہا گیا کہ ملک میں ’استحکام‘ کی خاطر  فیس بک سات فروری تک بلاک ہوگی۔ 

جمعرات کو فیس بک اور انٹرنیٹ کی نگرانی کرنے والے ادارے نیٹ بلاکس نے تصدیق کی کہ فیس بک، اس کی میسجنگ ایپ، واٹس ایپ اور انسٹاگرام سمیت کچھ سروسز تک رسائی پر پابندی لگا دی گئی ہے۔

فیس بک کے ترجمان نے اے ایف پی کو بتایا: ’ہم اس بات سے واقف ہیں کہ فی الحال کچھ لوگوں کے لیے فیس بک تک رسائی متاثر ہے۔ ہم حکام سے رابطے کی بحالی کا مطالبہ کرتے ہیں تاکہ میانمار میں لوگ اپنے خاندان اور دوستوں کے ساتھ بات چیت جاری سکیں اور اہم معلومات تک رسائی حاصل کرسکیں۔‘

ادھر ملک میں محکمہ صحت اور کرونا وائرس کی وبا کے دوران سروسز فراہم کرنے والے کارکنوں نے فوجی بغاوت کے خلاف احتجاج شروع کر دیا ہے۔

میانمار بھر کے طبی کارکنوں نے بغاوت کے خلاف سول نافرمانی کا بھی اعلان کیا ہے۔

طبی ارکان کا کہنا ہے کہ وہ فوجی حکومت کے لیے کام نہیں کریں گے۔ 

ایک ڈاکٹر نے ایسوسی ایٹڈ پریس کو بتایا: ’ہم دنیا کو دکھانا چاہتے ہیں کہ ہم مکمل طور پر فوجی آمریت کے خلاف ہیں اور ہم اپنی منتخب حکومت اور قائد کو واپس چاہتے ہیں۔‘

سوشل میڈیا پر جاری تصاویر میں طبی کارکنوں کو سرخ رنگ کے ربنز کے ساتھ احتجاج کرتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا