پشاور تھانے میں طالب علم کی موت: ’پولیس نے دل کا ٹکڑا مار دیا‘

پشاور میں پولیس کی تحویل میں ایک 14 سالہ لڑکے کی موت واقع ہونے کے بعد مذکورہ تھانے کے پورے عملے کو معطل کر کے واقعے کی تحقیقات شروع کر دی گئیں۔

14 سالہ شاہ زیب  (تصویر خیال اکبر)

پشاور میں اتوار کو پولیس کی تحویل میں ایک 14 سالہ لڑکے کی موت واقع ہونے کے بعد مذکورہ تھانے کے پورے عملے کو معطل کر کے واقعے کی تحقیقات شروع کر دی گئیں۔

ہلاک ہونے والے لڑکے شاہ زیب کے والد خیال اکبر نے بتایا کہ ان کا بیٹا گھر سے نکلا لیکن راستے میں پولیس والے اسے موٹر سائیکل کے کاغذات نہ ہونے پر پکڑ کر تھانے لے گئے، جہاں تشدد سے اس کی موت کے بعد واقعے کو پھانسی کا رنگ دیا جا رہا ہے۔

ضلع خیبر کے خیال اکبر دبئی میں محنت مزدوری کرتے ہیں اور شاہ زیب ان کے چھوٹا بیٹا اور ایک نجی سکول کا طالب علم تھا۔

انہوں نے بتایا کہ انہیں تھانے سے تقریباً تین بجے دوپہر کو کال آئی ہے کہ اسے گرفتار کیا گیا ہے۔ ’میں تھانے پہنچا لیکن پولیس والوں نے مجھے شام تک بیٹے سے نہیں ملوایا۔ بعد ازاں پولیس نے بتایا کہ ان کے بیٹے نے خود کو تھانے میں پھانسی لگا کر خود کشی کر لی۔‘

اکبر نے بتایا کہ یہ زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف ہے کیونکہ ایک جانب پولیس نے اسے ’تشدد کر کے مار دیا اور اب واقعے کو خود کشی کا رنگ دے رہے ہیں۔‘

ان کی مدعیت میں درج ایف آئی آر کے مطابق بچے کے مردہ جسم کو پھانسی کا پھندہ لگوایا گیا تاکہ واقعے کو خود کشی کا رنگ دیا جا سکے۔

ایف آئی آر میں یہ بھی لکھا ہے کہ پولیس نے پہلے پہل خیال اکبر کی منت سماجت کے باوجود مقدمہ درج کرنے سے انکار کیا لیکن شام کے بعد مقدمہ درج کر لیا گیا۔

پشاور پولیس کے سربراہ احسن عباس نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں واقعے کوافسوس ناک قرار دیتے ہوئے کہا کہ انہوں نے بچے کے والدین کی درخواست پر واقعے کی جوڈیشل انکوائری کرانے کا فیصلہ کیا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ جس تھانے میں یہ واقعہ ہوا وہاں کے سارے عملے کو معطل کرنے کے بعد تفتیش شروع کر دی گئی ہے۔ ’بچے کے والدین کو ہر صورت انصاف ملے گا اور واقعے میں ملوث اہلکاروں کے خلاف کارروائی ہو گی۔’

خیال اکبر کے مطابق ان کا بیٹا تو چلا گیا لیکن حکومت سے درخواست ہے کہ ایسے واقعات کو روکا جائے کیونکہ آئے دن ’پولیس بے گناہ لوگوں کو بغیر کسی وجہ کے قتل کر دیتی ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انھوں نے بتایا، ’میرا بیٹا تو چلا گیا جو میرا دل کا ٹکڑا تھا۔ حکومت اور عدالتیں مزید ایسے واقعات کی روک تھام کے لیے اقدامات کریں۔’

وزیر اعلیٰ کے دفتر سے جاری بیان کے مطابق وزیر اعلیٰ نے اس واقعے کی مذمت کی ہے۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ پولیس تحویل میں طالب علم کی موت میں ملوث اہلکاروں کو سخت سزا دی جائے گی اور خیبر پختونخوا پولیس سربراہ سے غیر جانب دار تحقیقات کرا کر رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کی ہے۔

گذشتہ ہفتے بھی پشاور میں پولیس اہلکاروں نے مبینہ طور پر ضلع بنوں سے پشاور لا کالج میں ٹیسٹ کے لیے آنے والے ایک طالب علم کی گاڑی پر فائرنگ کر کے اسے قتل کر دیا تھا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان