بلوچستان: کان حادثوں میں 22 مزدور ہلاک، حفاظتی اقدامات پر سوال

منگل کو ہرنائی میں کوئلہ کان میں گیس بھرنے کے بعد آگ لگنے کے نتیجے میں سات افراد ہلاک ہوگئے، یہ ایک ہفتے میں ہونے والا ایسا دوسرا حادثہ تھا۔

کان کنی  کی صنعت سے جڑے افراد کے مطابق حادثات کی اتنی تشویش ناک تعداد کی کئی وجوہات ہیں۔ (تصاویر:  پاکستان مائنز  ڈویلپمنٹ کارپوریشن)

حالیہ کچھ دنوں کے دوران بلوچستان میں مارواڑ، ہرنائی اور دیگر علاقوں میں کوئلے کی کانوں میں ہونے والے تین بڑے حادثات کے نتیجے میں اب تک 22 مزدور ہلاک ہوچکے ہیں۔ 

اس صنعت سے جڑے افراد کے مطابق حادثات کی اتنی تشویش ناک تعداد کی کئی وجوہات ہیں، جہاں حکام کا کہنا ہے کہ کانوں میں مالکان ذمہ داری سے کام نہیں لے رہے اور حفاظتی انظامات پورے نہیں کر رہے، وہیں مزدوروں کا کہنا ہے کہ ان کو کام کرنے کے لیے ناقص مال فراہم کیا جاتا ہے۔

محکمہ مائن اینڈ منرلز کے حکام کے مطابق کانوں کے حوالے سے 1923 کے قانون میں مزدوروں کے تحفظ اور حفاظتی سامان کی ذمہ داری کا تعین کیا گیا ہے اور اگر کان مالکان اس پر عمل کریں تو حادثات میں کمی آسکتی ہے۔ 

چیف انسپیکٹر مائنز بلوچستان شفقت فیاض نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ ’کوئلہ کانیں سندھ اور پنجاب میں بھی ہیں مگر وہاں حادثات کے بارے میں نہیں سنا جاتا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ بلوچستان کی صورت حال کچھ مختلف ہے کیونکہ یہاں پر موجود کوئلے کی کانیں گیسوں سے بھری ہوتی ہیں، یہاں کا کوئلہ اور اس کی ڈسٹ آگ بھی پکڑتا ہے، جس کے باعث حادثات ہوتے رہتے ہیں۔

شفقت فیاض کا کہنا تھا کہ محکمہ مائن نہ صرف ان کانوں کا معائنہ باقاعدگی سے کرواتا ہے بلکہ مالکان کو ہیلمٹ سمیت حفاظتی سامان اور ریسکیو کا سامان فراہم کرنے کے احکامات بھی دیتا ہے۔ 

ان کا مزید کہنا تھا کہ جن وجوہات کی وجہ سے بلوچستان کی کوئلہ کانوں میں حادثات ہوتے ہیں، ان کو تفصیل سے 1923 کے قانون میں لکھا گیا ہے اور ان سے بچنے کے بھی طریقے بتائے ہیں۔  

بلوچستان کی کوئلہ کانوں میں اکثر اوقات کوئلے میں آگ لگنے، کان بیٹھ جانے اور زہریلی گیس بھر جانے کے باعث مزدوروں کی ہلاکتیں ہوتی ہیں۔

انہوں نے ہرنائی میں ہونے والے حالیہ حادثے کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ ’کان مالک اور ٹھیکیدار یا مینیجر کی ذمہ داری تھی کہ وہ کسی کو اندر جانے نہیں دیتا۔‘

رواں ہفتے ہرنائی میں کوئلے کی کان میں گیس بھرنے اور آگ لگنے سے سات مزدور ہلاک ہوگئے تھے۔ یہ ایک ہفتے میں ہونے والا ایسا دوسرا حادثہ تھا۔  

چیف انسپیکٹر مائنز بلوچستان شفقت فیاض نے بتایا: ’یہاں ٹھیکیدار ہی کان میں اتر گیا جس کی وجہ سے نہ صرف وہ خود بلکہ دوسرے مزدور بھی لقمہ اجل بن گئے۔‘ 

بلوچستان کے آٹھ اضلاع میں سات ہزار کانوں سے لگ بھگ ایک لاکھ مزدور روزانہ سیکڑوں ٹن کوئلہ نکالتے ہیں۔ ان کانوں میں ایک محتاط اندازے کے مطابق تقریباً ایک لاکھ سے زائد مزدور ہزاروں فٹ زیر زمین جا کر کوئلہ نکالتے ہیں۔ 

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

مائن ماہرین کے مطابق ضلع ہرنائی سے نکلنے والے کوئلے میں سلفر کی مقدار بہت زیادہ ہوتی جس کی وجہ سے اس میں آگ لگنا معمول کی بات ہے۔ 

دوسری جانب مزدور الزام لگاتے ہیں کہ کان مالک کی طرف سے انہیں کان میں لگانے کے لیے کمزور لکڑی دی جاتی ہے، جس کے ٹوٹنے کا خطرہ بھی رہتا ہے۔ 

اس حوالے سے جب چیف انسپکٹر مائنز سے پوچھا گیا تو انہوں نے بتایا کہ بلوچستان میں کوئلہ مائننگ کے مختلف طریقے ہیں، جو کان مضبوط ہوتی ہے، وہاں کمزور اور جہاں کان کے بیٹھ جانے کا خطرہ ہوتا ہے وہاں مضبوط لکڑی لگائی جاتی ہے۔   

ان کے مطابق کانوں کا معائنہ ہر وقت جاری رہتا ہے اور محکمہ مائن اینڈ منرلز کے انسپکٹر دورے کرتے رہتے ہیں۔ ’حفاظتی سامان کی ذمہ داری کان مالک کی ہوتی ہے۔ اگر وہ فراہم نہیں کرتا تو اس کے خلاف کارروائی کی جاتی ہے۔‘

ان کا کہنا تھا: ’ہم نے ہرنائی اور دکی میں متعدد کان مالکان کی طرف سے حفاظتی سامان کی عدم فراہمی پر کانیں بند کی ہیں۔‘ 

دوسری جانب مزدور تنظیموں کے رہنما سمجھتے ہیں کہ کوئلہ کانوں میں حادثات کی ایک وجہ قدیم طرز کا طریقہ کار ہے۔  

مائنز لیبر الائنس کے جنرل سیکرٹری اقبال یوسفزئی نے بتایا کہ حادثات میں اضافے کی وجہ یہ ہے کہ مائن انسپکٹر اپنا کام نہیں کررہے، جبکہ جو لوگ کوئلہ کانوں میں مزدوری کررہے ہیں وہ غیر تربیت یافتہ ہیں، جو اگر کان میں اتریں گے تو حادثے کا خطرہ برقرار رہتا ہے۔ 

 اقبال کے بقول: ’مائن ایکٹ کے مطابق ہر تین مہینے میں مزدوروں کو تربیت دی جانی ضروری ہے، لیکن اس پر کوئی عمل نہیں ہورہا۔‘ 

اقبال یہ الزام بھی لگاتے ہیں کہ کوئلہ کانوں کے مالکان کی طرف سے کانوں میں ٹرالی کی رسی، لکڑی اور بجلی کی تاریں ہیں، وہ سب ناقص لگائی جاتی ہیں۔ 

ان کا کہنا ہے کہ 2018 میں بھی ایک کان میں بجلی کی ناقص تار کے باعث حادثہ پیش آیا تھا۔  

اقبال یوسفزئی نے بتایا کہ مزدوروں سے قبل ایک ’مائن سردار‘ کو پہلے کان میں اتر کر جائزہ لینا ہوتا ہے، اگر وہ اندر کی صورت حال ٹھیک سمجھتا ہے تو ہی مزدوروں کو اندر جانے کی اجازت دیتا ہے۔ ساتھ ہی انہوں نے بتایا: ’مگر بلوچستان میں مائن سردار کے حوالے سے کوئی عمل نہیں ہو رہا ہے، جس کے باعث ہم سمجھتے ہیں کہ حادثات میں اضافہ ہورہا ہے۔‘   

ادھر محکمہ مائن کے حکام نے بتایا کہ مزدوروں کو کان کنی کی تربیت اور حادثات کی روک تھام کے حوالے سے تربیت دینے کا سلسلہ  جاری ہے، تاہم مزدور اس میں زیادہ دلچسپی نہیں لیتے ہیں۔ 

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان