جب بٹ کوائن پر پہلا پیزا خریدا گیا!

پاکستان میں خیبر پختونخوا پہلا صوبہ ہے جس نے سرکاری طور پر ایک کمیٹی تشکیل دی ہے جو کرپٹو مائننگ پر کام کر رہی ہے۔

بٹ کوائن کو مائن کرنا اب بہت مشکل ہوگیا ہے کیونکہ اس کو مائن کرنے کے فامولے مشکل ہوگئے ہیں۔ (فائل تصویر: اے ایف پی )

ڈیجیٹل دنیا میں مشہور کرپٹو کرنسی اور کرپٹو مائننگ پوری دنیا میں مستعمل ہے، لیکن پاکستان میں خیبر پختونخوا پہلا صوبہ ہے جس نے سرکاری طور پر ایک کمیٹی تشکیل دی ہے جو کرپٹو مائننگ پر کام کر رہی ہے۔

کرپٹو مائیننگ وہ طریقہ ہے جس کے تحت کرپٹو کرنسی کے آن لائن لین دین کی تصدیق کی جاتی ہے اور اس کا ریکارڈ اپ ڈیٹ کیا جاتا ہے۔

کرپٹو مائننگ کو قانونی حیثیت دینے اور صوبے میں فروغ دینے کے لیے بنائی گئی خیبرپختونخوا کی ایڈوائزری کمیٹی کا پہلا اجلاس گذشتہ ہفتے منعقد ہوا تھا جس میں کرپٹو مائننگ کے مختلف پہلوؤں کو زیر بحث لایا گیا۔ کمیٹی کے پہلے اجلاس میں مزید ذیلی کمیٹیاں تشکیل دینے کا فیصلہ کیا گیا جس میں کرپٹو مائننگ کے ماہرین کو بھی شامل کیا گیا ہے۔ 

صوبائی وزیر برائے سائنس و ٹیکنالوجی ضیااللہ خان بنگش کے مطابق صوبائی حکومت کرپٹو مائننگ کے لیے سنجیدگی سے اقدامات کر رہی ہے اور تمام سٹیک ہولڈرز اور ماہرین سے مشاورت کے بعد قانونی طریقہ کار کے مطابق کرپٹو مائننگ اور بلاک چین ٹینکالوجی کا استعمال شروع کرنے کے لیے پورے ملک میں سبقت لے رہے ہیں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’کرپٹو مائننگ کے تمام تر اختیارات اور کنٹرول حکومت کے پاس ہوگا اور قانونی تقاضے پورے کرنے کے بعد تمام صنعت کار، چاہے وہ پاکستانی ہوں یا بیرون ممالک سے، ہمارے ساتھ رابطہ کر سکیں گے۔‘

انڈپینڈنٹ اردو نے زیر نظر تحریر میں یہ جاننے کی کوشش کی ہے کہ کرپٹو مائننگ کیا ہے اور کیا صوبائی حکومت اس حوالے سے اقدامات کر سکتی ہے یا یہ صرف وفاقی اور سٹیٹ بینک کی ذمہ داری ہے۔

کرپٹو مائننگ کیا ہے؟

کرپٹو مائننگ جاننے سے پہلے ضروری ہے کہ آپ کو کرپٹو کرنسی یا ڈیجیٹل کرنسی کے بارے میں معلوم ہو۔ کرپٹو کرنسی موجودہ دور میں دنیا بھر میں رائج اور استعمال ہونے والی کرنسی سے مختلف ہے اور جس طرح نام سے ہی واضح ہے کہ یہ ایک آن لائن ڈیجیٹل کرنسی ہے۔

 

نیشنل سینٹر برائے بیگ ڈیٹا اینڈ کلاؤڈ کمپیوٹنگ کے سربراہ اور گذشتہ چار سالوں سے کرپٹوکرنسی کی مائننگ کی تکنیک پر کام کرنے والے محسن طارق نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ کرپٹو مائننگ کا نام گولڈ یعنی سونے کی مائننگ سے نکلا ہے اور جس طرح سونے کو ایک مشکل طریقے سے مختلف آلات استعمال کر کے نکالا جاتا ہے، اسی طرح کرپٹوکرنسی کو بنانے کے لیے کمپیوٹر کے ذریعے کچھ مشکل فارمولے حل کیے جاتے ہیں جن کو حل کرنے پر صارف کو کرنسی ملتی ہے۔

انہوں نے بتایا کہ کرپٹوکرنسی کے بنانے کے پورے عمل کو کرپٹو مائننگ کہا جاتا ہے اور کرپٹو مائننگ کرنے والوں کو ’مائنر۔‘

ان کا کہنا تھا: ’کمپیوٹر پر مشکل فارمولے حل کرنے پر ایک خاص تعداد میں ڈیجیٹل کرنسی مل جاتی ہے جس سے صارف پھر خریداری کر سکتا ہے۔‘

محسن کے مطابق کرپٹوکرنسی کو 2009 میں ساتوشو ناکوموٹو نامی ایک شخص نے ایجاد کیا تھا، جو پیشے کے لحاظ سے سافٹ ویئر انجینیئر ہیں اور اپنا اصلی نام خفیہ ہی رکھنا چاہتے ہیں۔ 

شروع میں اس کرنسی کو اتنی توجہ نہیں مل سکی لیکن پھر یہ ڈارک ویب پر موجود ایک ویب سائٹ ڈیجیٹل کرنسی کے لیے پہلی آن لائن مارکیٹ بنی جس پر لوگ ڈیجیٹل کرنسی کے ذریعے خریداری کرتے تھے۔

محسن نے بتایا: ’اس ڈارک ویب کی سائٹ پر لوگ کرائے کے قاتل کی خدمات بھی حاصل کر سکتے تھے اور یہ سب کچھ ڈیجیٹل کرنسی کی مدد سے کیا جاتا تھا۔ اسی ویب سائٹ پر منشیات کا کاروبار بھی کرپٹو کرنسی میں کیا جاتا تھا اور وہاں سے کرپٹو کرنسی مشہور بھی ہوئی اور بدنام بھی ہوئی کیونکہ کرپٹو کرنسی ایسی کرنسی ہے جس کا کوئی ٹریک نہیں رکھ سکتا۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

کرپٹو کرنسی اور دنیا میں رائج موجود کرنسیوں میں فرق یہ ہے کہ کرپٹو کرنسی میں درمیان کا کوئی بندہ نہیں ہوتا جو ٹرانزیکشن کا ٹریک ریکارڈ کر سکے۔ مثلاً بینک سے پیسے لیتے یا جمع کرواتے ہوئے بینک کے پاس ان پیسوں کا ریکارڈ ہوتا ہے، تاہم کرپٹو کرنسی میں ایسا نہیں ہوتا۔

ساتوشو ناکوموٹو جب 2009 میں پہلی بار کرپٹو کرنسی مارکیٹ میں لائے تو انہوں نے 50 بٹ کوائن مائن کیے اور اسی طرح ہر دس منٹ بعد کمپیوٹر پر فارمولے حل کرکے مزید 50 بٹ کوائن مائن کرتے رہے۔ وہ مائنگ کرکے مختلف لوگوں کو بھیجتے رہے تاہم ان بٹ کوائن کی کوئی قدر نہیں تھی۔

جب بٹ کوائن پر پیزا خریدا گیا 

محسن نے بتایا کہ بٹ کوائن کو قدر تب ملی، جب بٹ کوائن کے ذریعے پیزا خریدا گیا۔ یہ 22 مئی 2010 کی بات ہے جب بٹ کوائن کو ایجاد ہوئے ایک سال گزر گیا تھا۔ ایک کمپیوٹر پروگرامر لاسزلو حانیچ نے پیزا کی مشہور چین ’پاپا جونز‘ سے 10 ہزار بٹ کوائن کے ذریعے دو پیزے خریدے۔

اسے دنیا میں کرپٹوکرنسی کی پہلی خریداری مانا جاتا ہے اور اب اس دن کو کرپٹوکرنسی کی دنیا میں ’بٹ کوائن پیزا ڈے‘ کہا جاتا ہے۔

کرپٹو مائننگ کے لیے ایسے کمپیوٹر چاہیے ہوتے ہیں جن میں طاقت ور ’گرافکس پراسیسنگ یونٹ‘ لگ جائیں اور وہ ہر وقت چلتے رہتے ہیں کیونکہ ہر دس منٹ کے بعد  یہ کرپٹو کرنسی مائن کرنی ہوتی ہے۔

محسن نے بتایا کہ کرپٹو کرنسی مائن کرنے کے بعد صارف پھر اس کرنسی کی خریداری بھی کرسکتا ہے اور اس کو بحیثیت اثاثہ اپنے پاس بھی رکھ سکتا ہے۔

 پاکستان میں ابھی تک کرپٹو کرنسی کے حوالے سے باقاعدہ قانون موجود نہیں۔ سٹیٹ بینک کی بھی کرپٹو کرنسی کے حوالے سے کوئی واضح پالیسی نہیں ہے۔ 

کیا کرپٹو مائننگ پر پاکستان میں پابندی ہے؟

سٹیٹ بینک نے 2018 میں ایک پریس ریلیز کے ذریعے بتایا تھا کہ پاکستان میں کرپٹوکرنسی میں کسی قسم کی خریداری یا بینک کی جانب سے کرپٹو کرنسی میں ڈیل کرنے کے حوالے سے قانونی یا غیر قانونی حیثیت میں کچھ واضح نہیں ہے۔

تاہم 2018 میں سٹیٹ بینک کی جانب سے ایک سرکولر جاری کیا گیا تھا جس میں بینکوں کو بتایا گیا تھا کہ وہ کرپٹو کرنسی میں کسی قسم کی ٹریڈنگ یا اس کی ٹرانزیکشن کو پراسس نہیں کریں گے اور نہ کرپٹو کرنسی کے کاروبار کرنے والوں کو خدمات فراہم کریں کیونکہ ’ایسی ٹرانزیکشن غیر قانونی خریدو فروخت میں استعمال ہوتی ہے۔‘

ٹیلی ویژن میزبان وقار ذکا نے سندھ ہائی کورٹ میں ایک پیٹیشن بھی دائر کی تھی جس میں سوال اٹھایا گیا کہ سٹیٹ بینک نے کس قانون کے تحت کرپٹو کرنسی پر پابندی لگائی ہے؟

سٹیٹ بینک نے عدالت کو بتایا تھا کہ اس نے کرپٹو کرنسی پر کسی قسم کی پابندی نہیں لگائی ہے، اور عوام کو بھی پریس ریلیز کے ذریعے آگاہ کیا گیا تھا کہ کرپٹو کرنسی سے متعلق سٹیٹ بینک نے ابھی تک کوئی پالیسی وضع نہیں کی ہے۔

بینک کا مزید کہنا تھا کہ کرپٹو کرنسی کے منی لانڈرنگ اور دہشت گردوں کی معاونت کے لیے استعمال ہونے کا خطرہ موجود ہے۔

پاکستان میں شدت پسند گروپوں کو بٹ کوائن کے ذریعے  مالی معاونت کے واقعات بھی رپورٹ ہوئے ہیں۔ سندھ پولیس کے مطابق گذشتہ ماہ کراچی میں انہوں نے ایک یونیورسٹی طالب علم کو بٹ کوائن کے ذریعے شدت پسند گروپ کو پیسے بھیجوانے کے الزام میں گرفتار کیا۔

حکومتی کرپٹو فارمز کیسے ہوں گے؟

محسن طارق کے مطابق حکومتی سرپرستی میں کرپٹو مائننگ فارمز لگانے کا مطلب یہ ہے کہ حکومت کی جانب سے بڑے پیمانے پر کرپٹو مائننگ فارمز لگائے جائیں گے اور وہ ڈیجیٹل کرنسی مائن کرنا شروع کریں گے۔ کرپٹو مائننگ فارمز کے لیے بلا تعطل بجلی اور انٹرنیٹ کی سپلائی ضروری ہوتی ہے اور حکومت نجی پارٹنر کے ساتھ معاہدہ کرکے مائننگ کرسکتی ہے۔

محسن نے بتایا کہ حالیہ دنوں میں مشہور کمپنی پے پال نے کرپٹو کرنسی میں خریدو فروخت کی اجازت دے دی ہے جس کی وجہ سے کرپٹو کرنسی کی قدر دنیا بھر میں بڑھ گئی ہے۔ یہ بات بھی ضروری ہے کہ دنیا میں اب صرف بٹ کوائن نہیں بلکہ ہزاروں میں کرپٹو کرنسی موجود ہیں، تاہم بٹ کوائن کو مائن کرنا اب بہت مشکل ہوگیا ہے کیونکہ اس کو مائن کرنے کے فامولے مشکل ہوگئے ہیں۔ 

کرپٹو مائننگ فارمز لگانے پر کتنا خرچہ آتا ہے؟

کرپٹو مائننگ کے طریقہ کار کے بارے میں تو ہم نے جان لیا، تاہم اب جانتے ہیں کہ کرپٹو مائننگ لگانے پر خرچہ کتنا آتا ہے ۔ محسن طارق نے بتایا کہ کرپٹو مائننگ کوئی بھی بندہ اپنے کمپیوٹر یا لیپ ٹاپ پر کر سکتا ہے جس میں آپ کو ایک سافٹ ویئر انسٹال کرنا پڑے گا جو مفت میں ملتا ہے۔

تاہم محسن کے مطابق کمپیوٹر کے ساتھ آپ کو ایک گرافکس کارڈ (جو ویڈیو ایڈیٹنگ یا گیمز کھیلنے جیسے کاموں کے لیے ضروری ہوتا ہے) لگانا پڑے گا۔ یہ گرافکس  کارڈ عام گیم میں استعمال ہونے والے گرافکس کارڈ سے مہنگا ہوتا ہے اور پاکستان میں با آسانی مل سکتا ہے۔

محسن نے بتایا: ’گرافکس کارڈ اور پورا سسٹم لگانے  پر 20 لاکھ سے 30 لاکھ تک کا خرچہ آتا ہے اور اس میں سب سے زیادہ خرچہ گرافکس کارڈ خریدنے کا ہے۔‘

یہ سسٹم کہاں پر لگایا جا سکتا ہے؟ اس کے جواب میں محسن نے بتایا کہ جب یہ مائننگ سسٹم چلتا ہے تو بہت زیادہ  گرمی پیدا کرتا ہے، اسی وجہ سے مائننگ لگانے کے لیے سرد علاقوں کا انتخاب کیا جاتا ہے جس طرح پاکستان کے شمالی علاقہ جات تاکہ وہاں پر سسٹم کو نارمل ٹمپریچر پر رکھنے کے لیے مزید خرچہ نہ کرنا  پڑے۔

محسن نے بتایا کہ اگر کوئی شخص گرم مرطوب علاقوں میں اس کو لگائے گا تو اس کمپیوٹر کا درجہ حرارت برقرار رکھنے کے لیے آپ کو ایئر کنڈیشنر یا کوئی اور کولنگ سسٹم لگانا پڑے گا۔

تاہم محسن کے مطابق اس سسٹم میں مشکل کام کمپیوٹر پر دیے گئے ڈیجیٹل کرنسی  بنانے کے لیے فامولے حل کرنا ہے۔ ’اب بٹ کوائن سب سے مہنگی ڈیجیٹل کرنسی ہے، تو اس کو مائن کرنے کے لیے بہت مشکل فارمولے حل کرنے پڑتے ہیں جبکہ دوسری کرنسیوں کے لیے فارمولے قدرے آسان ہیں۔‘ 

کیا کوئی کرپٹو مائئنگ فرم کے بغیر اس کاروبار میں جا سکتا ہے؟

محسن کا کہنا تھا کہ ڈیجیٹل کرنسی کے کاروبار میں صنعت کاری کرنے کے لیے مائننگ فارمز لگانے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ آن لائن ڈیجیٹل کرنسیز ایکسچینج ہوتی ہیں اور کوئی بھی اس آن لائن ایپ کے ذریعے ان کو بینک کے ذریعے پیسے بھیج کر ڈیجیٹل کر نسی لے سکتا ہے۔

محسن نے بتایا: ’اس کی عام مثال ایسی  ہے جس طرح آپ کسی منی ایکسچینجر کے پاس جا کر ان کو پاکستانی روپے دے کر ان سے کوئی اور کرنسی جیسے کہ ڈالر یا سعودی ریال خریدتے ہیں۔‘

 تاہم محسن کے مطابق اس سارے سسٹم میں فراڈ اور جعل سازی کا عنصر ضرور موجود ہے اور ماضی میں ایسے واقعات سامنے آئے ہیں کہ ایک شخص نے پیسے بھیج دیے لیکن ان کو ڈیجیٹل کرنسی نہیں ملی اور ان کے ساتھ فراڈ ہوا ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ٹیکنالوجی