صدارتی ایوارڈ حاصل کرنے والی سوات کی تبسم عدنان کون ہیں؟

تبسم عدنان کہتی ہیں کہ گذشتہ دس سالوں میں انہوں نے سوات میں خواتین کے حقوق کے لیے ناموافق حالات ومسائل کے باوجود کام کیا، یہی وجہ تھی کہ بین الاقوامی سطح پر ان کی کوششوں کو سراہا گیا۔

تبسم عدنان کو پہلی مرتبہ 2014 میں نیدر لینڈز کی حکومت کی جانب سے ’ہیومن رائٹس ڈیفنڈر‘ کا ایوارڈ ملا (تبسم عدنان)

رواں سال یوم پاکستان کے موقع  پر  ایوان صدر میں منعقدہ  تقریب کے دوران صدر پاکستان عارف علوی نے جن مختلف شعبہ ہائے زندگی میں نمایاں کارکردگی دکھانے والوں کو ایوارڈ سے نوازا ان میں صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع سوات سے تعلق رکھنے والی تبسم عدنان بھی تھیں۔

تبسم عدنان  نے اس موقع پر کہا کہ ’دنیا کی سطح پر بہت پہچان ملی لیکن ایک خواہش تھی کہ میرے اپنے ملک میں میری اس جدوجہد کا احساس ہو جو میں کر رہی ہوں۔ ‘

تبسم عدنان نے انڈپینڈنٹ اردو کے ساتھ ایک تفصیلی انٹرویو کے دوران کہا کہ پچھلے دس سالوں میں انہوں نے ضلع سوات میں خواتین کی فلاح وبہبود اور حقوق کے لیے باوجود ناموافق حالات ومسائل کے کام کیا، یہی وجہ تھی کہ بین الاقوامی سطح پر ان کی کوششوں کو سراہا گیا، لیکن اپنے ملک میں انہیں کسی قسم کی حوصلہ افزائی نہیں ملی۔

ان کی جدوجہد کا باب اس وقت شروع ہوتا ہے جب 2011 میں مالی مسائل اور گھریلو  زندگی کی پریشانیوں سے تنگ آکر انہوں نےخواتین کی صحت پر کام کرنے والے ایک غیر سرکاری ادارے میں شمولیت اختیار کی۔

’اس دوران مجھےخواتین کے مسائل کو قریب سے جاننے کا موقع ملا۔ اور ہر گزرتے دن کے ساتھ میں اپنے مسائل کو بھول کر دیگر خواتین کے مسائل میں دلچسپی لینے لگی۔ یہی وہ وقت تھا جب مجھے لگا کہ سوات کی خواتین کے لیے ایک ایسا پلیٹ فارم ہونا چاہیے کہ وہ  ایک جگہ پر اکھٹی ہوکر اپنے مسائل اورمعاملات پر بات کریں۔‘

خواتین کے مسائل کے حل کے لیے جب تبسم عدنان کی سربراہی میں خیبر پختونخؤا کی تاریخ میں پہلی مرتبہ خواتین نے جرگہ کرنا شروع کیا تو مقامی سطح پر ان کو سخت مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔

’لوگ ہمارا مذاق اڑانے لگے اور کہا کہ یہاں تو مردوں کے جرگے کی کوئی اہمیت نہیں تو خواتین کے جرگوں کو کون مانے گا۔ بعض نے تو مخالفت میں آن ریکارڈ یہاں تک کہا کہ ایسی خواتین کے سر  ڈنڈوں سے مارنے چاہیئں۔ ہمیں بدچلن اور آوارہ کہا گیا۔ ایک جانی پہچانی خاتون شخصیت نے ہماری کاوشوں کو ایک ڈراما قرار دیا اور کہا کہ یہ سب مشہور ہونے کے لیے کیا جا رہا ہے۔‘

تبسم عدنان کے مطابق، مخالفت نے ان کے ارادوں کو مزید پختہ کیا اور انہوں نے 2013 میں یہ اعلان کیا کہ وہ ’د خویندو جرگہ‘ (بہنوں کا جرگہ) کے نام سے ایک تنظیم بنا کر آگے بڑھیں گی۔

’میں نے ضد میں آکر یہ نام رکھا تاکہ سب کو بتاسکوں کہ خواتین بھی جرگہ کر سکتی ہیں اور اس کا حصہ بن سکتی ہیں۔ ہم نے اپر اور لوئر سوات کے مختلف دور افتادہ علاقوں میں خواتین کے 25 گروپ بنائے جو آج بھی ’خویندو جرگہ‘ کی چھتری تلے کام کر رہے ہیں اور خواتین کے مسائل حل کر رہے ہیں۔‘

تبسم کا کہنا ہے کہ یہ ان کی کامیابی ہے کہ سالوں پہلے خواتین کے جس جرگے کی مخالفت ہورہی تھی وہاں اب اکثر مرد حضرات بھی اپنے مسائل لے کر آتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ’د خویندو جرگہ‘ میں وراثت، ٹریفیکنگ،سوارا،  قتل،  خودکشی،  ہراسانی،  تشدد اور دیگر  ہر  اس مسئلے کو دیکھا جاتا ہے جس کا کسی خاتون کو سامنا ہو۔

اسی تناظر میں تبسم نے ایک قصہ یاد کرنے کی کوشش کی جس کے مطابق ایک نوجوان خاتون کی شوہر نے ناک کاٹ دی تھی۔ تبسم کی کوششوں اور ایسڈ سروائیور فاؤنڈیشن کیےتعاون سے خاتون کی دوبارہ ناک لگوائی گئی۔

’ہم نے ایک ایسی شادی شدہ خواتین کو  بھی بچایا تھا جن کو  والدین شیر خوار بچی سمیت بیچ رہے تھے۔ تاہم ہماری بروقت مداخلت سے ماں اور بچی دونوں کو  بچا لیا گیا۔‘

تبسم عدنان کا کہنا ہے کہ حاسدین اور خواتین کے حقوق کی مخالفت کرنے والوں نے ان کے خلاف ایسا پروپیگنڈہ کیا کہ سوات میں کسی بینک نے ان کے ادارے کا اکاؤنٹ کھولنا قبول نہیں کیا۔

’شروع میں مختلف اداروں نے ہمیں فنڈنگ کی لیکن اب اکاونٹ نہ ہونے کی صورت میں کوئی فنڈ دینے کو تیار نہیں ہے جب کہ اکاونٹ کھولنے کے لیےآج کل جتنی رقم درکار ہوتی ہے اتنی میری استطاعت نہیں ہے۔ اب میں اور میرے 25 گروپس کی لیڈر خواتین اپنی مدد آپ کے تحت کام کر رہی ہیں۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

تبسم عدنان کے مطابق، جب انہیں بین الاقوامی سطح پر پہچان ملی اور انہیں ایوارڈ سے نوازا گیا تو ان کی مشکلات میں مزید اضافہ ہوا اور انہیں آئے دن دھمکیوں کی کال موصول ہونے لگی۔

’مجھے آج بھی ڈرایا اور  دھمکایا جاتا ہے  اور  اس کام سے روکا جا رہا ہے جو دینی اور دنیاوی دونوں لحاظ سے جائز ہے۔ ایک خاتون کی مصیبت میں مدد کرنا اور اس کو رہنمائی فراہم کرنا کس مذہب اور قانون میں منع ہے؟ یہی وجہ ہے کہ میں بضد ہوں اور اپنا کام جاری رکھے ہوئے ہوں۔‘

تبسم عدنان کو پہلی مرتبہ 2014 میں نیدر لینڈز کی حکومت کی جانب سے ’ہیومن رائٹس ڈیفنڈر‘ کا ایوارڈ ملا۔ 2015 میں انہیں امریکہ کے سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی جانب  سے ’انٹرنیشنل ویمن آف کریج‘ کا ایوارڈ ملا۔ جب کہ 2016 میں انہیں نیلسن منڈیلا ایوارڈ سے بھی نوازا گیا۔

ان کا کہنا ہے کہ اگرچہ یوم پاکستان تقریب کے اختتام کے بعد کئی خواتین فنکاراؤں اور شخصیات نے ان کے ساتھ مستقبل میں کام کرنے کی خواہش کا اظہار کیا تاہم انہوں نے کہا کہ تاحال انہیں کسی قسم کی سرکاری سرپرستی میں کام جاری رکھنے کے لیے کوئی پیشکش نہیں ہوئی ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی خواتین