مہمند: دھول اڑاتے کارخانے جو کئی زندگیاں نگل گئے

مہمند میں پتھر کا پاؤڈر بنانے والے کارخانوں سے اٹھنے والی گرد ایک خاندان کے چار افراد سمیت کئی زندگیاں لے چکی ہے۔

آج سے 25 سال پہلے بلال خان کے دادا حاجی طالب پتھر سے پاؤڈر بنانے کے کارخانے کی مشین پنجاب سے پہلی بار مہمند میں لائے، لیکن اس وقت انہیں نہیں معلوم تھا کہ اس کارخانے سے اٹھنے والا گردغبار انہیں اور ان کے تین بیٹوں کو موت کے منہ میں لے جائے گا۔

ضلع مہمند کی تحصیل یکہ غنڈ کے علاقے عقرب ڈاگ کے رہائشی 22 سالہ بلال خان بتاتے ہیں کہ وہ چھوٹے تھے کہ پہلے ان کے دادا پھر بڑے چچا اور ان کے بعد دوسرے چچا فوت ہو گئے۔ دادا اور دونوں چچاؤں کی وفات کے بعد 16 سال قبل ان کے والد فولا خان سینے کی طویل بیماری کے بعد انتقال کر گئے۔

وہ بتاتے ہیں: ’میرے دادا نے جب یہ کارخانہ لگایا تو وہ بڑے خوش تھے کہ گھر پر روزگار میسر ہو گیا۔ اس وقت کوارٹز (بکورہ پتھر) سے بننے والے پاؤڈر کی بڑی مانگ تھی لیکن جیسے جیسے وقت گزرتا گیا کارخانے میں پتھر سے پاﺅڈر بننے کے دوران گردوغبار سانس کے ذریعے ان کے پھیپڑوں میں داخل ہوتا رہا۔‘

’وہ کچھ عرصے بعد سینے کی جان لیوا بیماری میں مبتلا ہوگئے۔ یوں اس گردوغبار کی وجہ سے دادا اور والد سمیت خاندان کے چار بڑے اپنی زندگی سے ہاتھ دھو بیھٹے۔‘

بلال کے مطابق اس کارخانے کی گرد سے پورا علاقہ متاثر ہو رہا تھا جس پر اسے ختم کر کے تمام سامان کباڑ میں بیچ دیا گیا اور اب خاندان کے نوجوان محنت مزدوری کرتے ہیں۔ ’دیہاڑی کا کام سخت تو ہوتا ہے لیکن صحت تو محفوظ ہے۔‘

مہمند کے پہاڑیوں میں سنگ مرمر، کرومائیٹ، نیفرائیڈ کے ساتھ کوارٹز پتھر بھی پایا جاتا ہے جسے مقامی لوگ اپنی زبان میں بکورہ پتھر کہتے ہیں۔

یہ بہت سخت اور شیشے کی طرح نظر آنے والا پتھر ہے جسے مختلف پہاڑیوں سے تحصیل یکہ غنڈ اور تحصیل پنڈ یالئی میں 100 کے لگ بگ کارخانوں میں لا کر ان سے پاﺅڈر بنایا جاتا ہے۔

یہ پاؤڈر بعد ازاں بیرون ملک کے علاوہ پاکستان کے دوسرے علاقوں بالخصوص پنجاب کے کارخانوں اور کراچی بھیجا جاتا ہے۔ اس پاؤڈر کو ڈیکوریشن کے سامان، گلدان، ٹائلز، کموڈ، کپ اور بجلی کے سامان کے علاوہ بہت سی اشیا کی تیاری میں استعمال کیا جاتا ہے۔

تحت بھائی کے رہائشی عمر علی مزدوری کی غرض سے بکورہ پتھر سے پاﺅڈر بنانے والے ایک کارخانے میں کام کرتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ان کے آبائی علاقے میں روزگار کی صورت حال خراب ہے جس کی وجہ سے وہ یہاں مزدوری کرتے ہیں۔

2018 میں ایف اے کرنے والے عمر نے بتایا کہ لوگ اس کام کو خطرناک کہتے ہیں لیکن مجبوری اور غربت کی وجہ سے وہ یہ کام کر رہے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

عمر کے مطابق جب وہ گاڑی میں گھر سے یہاں آ رہے تھے تو راستے میں لوگوں نے بتایا کہ اس پاﺅڈر کا گردوغبار صحت کے لیے نقصان دہ ہے اور لوگوں کو مختلف بیماریوں میں مبتلا کردیتا ہے۔ ’یہ بھی بتایا کہ اس سے پھیپڑے خراب ہوجاتے ہیں اور اس سے لگنے والی بیماری سے بچنا مشکل ہوتا ہے۔ یہاں کئی مزدوروں کے ساتھ ایسا ہوا بھی ہے۔ لوگ کہتے ہیں کہ 20 سے 25 مزدوراس پاﺅڈر کی وجہ سے فوت ہوئے۔‘

انہوں نے کہا کہ اب یہاں پر بجلی کی لوڈشیڈنگ کی وجہ سے دیہاڑی صحیح نہیں لگتی، کھبی ہزار تو کبھی پانچ، چھ سو روپے مل جاتے ہیں، تو ان کو یہی روزگار ٹھیک لگا۔ 

لوئر مہمند تحصیل یکہ غنڈ کے رہائشی اور سماجی کارکن ملک محمد آمین نے بتایا کہ اس پاﺅڈر سے ڈھنڈ گاﺅں کی بران خیل برادری سب سے زیادہ متاثر ہوئی ہے۔ ’جس طرح کرونا (کورونا) وائرس ہوا کے ذریعے منتقل ہوتا ہے اسی طرح یہ (پاؤڈر) بھی ہوا کے ساتھ اڑتے ہوئے جہاں جاتا ہے اس علاقے کو متاثر کر دیتا ہے۔‘

انہوں نے کہا کہ ان مزدوروں کو پتہ بھی ہے کہ اس کام کی وجہ سے ان کی زندگی جا سکتی ہیں لیکن وہ پھر بھی یہ کام کر رہے ہیں۔ ’علاقہ مکینوں اور نہ ہی حکومت نے اس جانب کوئی توجہ دی کہ ان خارخانوں کو رکوائے اور ان کی جگہ کوئی متبادل کام فراہم کرے۔‘

پاﺅڈر بنانے والے ایک کارخانے میں مزدوری کرنے والے ضلع باجوڑ کے رہائشی ایوب خان نے بتایا کہ وہ پچھلے چھ سات سال سے یہاں کام کر رہے ہیں۔

انہوں نے شکوہ کیا کہ بجلی کے شدید بحران کی وجہ سے مزدوروں کی نیند تک پوری نہیں ہوتی کیونکہ دن میں بجلی کئی مرتبہ آتی جاتی ہے۔ ’اس طرح کے ماحول میں ہماری دیہاڑی نہیں بنتی اور جب مسلسل کام کریں تو 800 یا ایک ہزار روپے تک دیہاڑی بن جاتی ہے لیکن بجلی نہ ہونے پر 400 روپے بھی نہیں بنتے۔‘

انہوں نے بتایا کہ وہ ٹھیکے پر کام کرتے ہیں اور 50 کلو پاﺅڈر کی ایک بوری کو 12 روپے کے حساب سے نکالتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ خطرناک پاؤڈر کی وجہ سے کارخانے کا مالک انہیں احتیاط کے طور پر ماسک اور کپڑے کو گیلا کرکے منہ اور ناک کو ڈھانپ کر رکھنے کا کہتے ہیں تاکہ وہ پاﺅڈرکی گرد سے وہ محفوظ رہ سکیں۔

ایوب خان نے کہا کہ ان کے سامنے تو کوئی نہیں مرا البتہ وہ لوگوں سے سنتے ہیں کہ اس پاﺅڈر سے لوگ مر جاتے ہیں۔

انہوں نے درخواست کی کہ بجلی کا مسئلہ حل کیا جائے تاکہ لوڈ شیڈنگ ختم ہو اور وہ اور مالکوں دونوں کا کام چل سکے۔

ڈھنڈ کے رہائشی 65 سالہ خانے ولد عمر دین نے بتایا کہ ان کے دو بھائی فوزی خان اور محمد افضل ایسے ہی ایک کارخانے میں مزدوری کے دوران سینے کی بیماری میں مبتلا ہوئے اور لمبے علاج کے بعد فوت ہو گئے۔

انہوں نے کہا کہ ڈھنڈ ان کارخانوں کی وجہ سے سب سے زیادہ متاثرہ علاقہ ہے اور چند سالوں میں اب تک یہاں 30 سے زائد افراد مبینہ طور پر اس پاؤڈر کی وجہ سے لقمہ اجل بن چکے ہیں۔ 

خانے نے کہا کہ ڈھنڈ کے پاس آج سے 35 سال پہلے ایک کارخانہ لگایا گیا، ایسے کارخانوں کی وجہ سے ’ہم نے کئی جوانوں کو کھو دیا۔ اس کے علاوہ مہنگے علاج کی بنا پر پورا خاندان شدید مالی بحران کا شکار ہو جاتا ہے۔{

ان کا کہنا تھا: ’ہم اپنے بھائیوں کو ڈاکٹر کے پاس لے جاتے تو وہ بتاتے تھے کہ صرف درد کا انجکشن لگوایا کرو تاکہ گزارہ ہو سکے۔ یہ گرد ان کے پھیپڑوں میں اس طرح جم چکی تھی کہ پورے پھیپڑے ناکارہ ہو گئے۔ یہ پاﺅڈر شیشے کی مانند ہیں اور پھیپڑوں کو اندر سے زخمی کر کے کینسر کر دیتا ہے۔‘

انہوں نے کہا کہ علاقے میں اموات کی تعداد بڑھنے پر گاﺅں والے علاقے میں پہلا کارخانہ لگانے والے کو اس کا ذمہ دار ٹہراتے ہیں۔ 

لوئرمہمند کے عوض خان بھی اس پاؤڈر کی وجہ سے ایک جوان بھائی رحیم خان اور والد دائم خان کو کھو چکے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ ان کے والد اور بھائی اکھٹے کارخانے میں دو تین سال کام کرنے کے بعد سینے کی بیماری میں مبتلا ہوئے اور چار سال تک علاج کروانے کے بعد پہلے والد اور بعد میں بھائی چل بسے۔

انڈپینڈنٹ اردو نے پتھر سے پاﺅڈر بنانے والے ایک کارخانے کے مالک محبوب شیر سے گفتگو کی، جنہوں نے بتایا کہ لوئر اور اپر مہمند میں سو کے قریب ایسے کارخانوں میں سے 80 فیصد فعال جبکہ باقی مختلف مسائل کی وجہ سے بند پڑے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ایک کارخانے میں تقریباً 15 مزدور کام کرتے ہیں، یہ پاﺅڈر صرف مہمند میں تیار ہوتا ہے، جسے ملک اور باہر ممالک بھیج دیا جاتا ہے۔

جب محبوب شیر سے سوال کیا گیا کہ اس پاﺅڈر سے کئی زندگیاں ختم ہو گئیں تو انہوں نے کیا حفاظتی اقدامات اٹھائے ہیں؟ تو ان کا کہنا تھا کہ پہلے یہ پاﺅڈر بنانے والی مشین ایک ہال یا بند کمرے میں لگائی جاتی تھی جس سے یہ واقعات رونما ہوئے لیکن اب لوگ سجمھ چکے ہیں لہٰذا کھلی فضا میں مشینں لگا دی گئی ہیں، جس سے مزدوروں کو نقصان کا اندیشہ کم ہوچکا ہے۔

انہوں نے کہا کہ انہیں کوئی حکومتی تعاون یا رہنمائی حاصل نہیں، قبائلی علاقوں کے انضمام کے وقت پانچ سال تک ان علاقوں کو ٹیکس سے مستثنیٰ قرار دیا گیا تھا لیکن ہمیں اب بھی بجلی کی بلوں میں ہزاروں روپے ٹیکس دینا پڑتا ہے۔

پشاور میں مقیم پلمونالوجسٹ پروفیسر ڈاکٹر فضل وہاب نے بتایا کہ اس گرد سے لگنے والی بیماری کو سیلی کوسس (silicosis) کہتے ہیں جس میں پھتروں کو تراشتے وقت اڑنے والی گرد پھیپھڑوں میں جم جاتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ بکورہ پتھرکی ’گرد دوسرے پتھر یعنیٰ سنگ مرمر تراشنے والے پتھر سے اٹھنے والی گرد سے خطرناک ہے کیونکہ یہ عام پتھر نہیں اس میں کیمیکل کا عنصر ہوتا ہے۔‘

’ایسے کارخانے میں کام کرنے والے مزدور کو لازمی نہیں کہ بروقت پتہ چلے، ہوسکتا ہے کہ اسے کئی سالوں بعد اپنے بیماری میں مبتلا ہونے کا پتہ چلے، اس بیماری سے پھیپڑوں کا کینسر ہوتا ہے جبکہ (آلودگی سے) آس پاس آبادی بھی متاثر ہوتی ہے۔‘ 

انہوں نے کہا کہ یہ بیماری کراچی کے ڈاک یارڈ میں بحری بیڑوں کو کاٹنے کے دوران بھی مزدوروں کو لگ جاتی ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ملٹی میڈیا