مردانہ ہارمون کا تنازع: سیمینیا کا کیریئر خطرے میں

اس وقت ساری بحث عالمی چیمپیئن سیمینیا کی مہارت کے بارے میں نہیں، بلکہ اس پر ہو رہی ہے کہ آیا وہ عورت ہیں یا نہیں۔

سیمینیا نے تمام تر مشکلات اور تنازعات کے باوجود عالمی ریکارڈ قائم کیا۔ (فوٹو: روئٹرز)

17 اگست 2009 میں جنوبی افریقہ کی کیسٹر سیمینیا برلن میں ہونے والے عالمی ایتھلیٹکس چیمپیئن شپ مقابلوں کے سیمی فائنل میں 800 میٹر دوڑ جیت کر واپس چینجنگ روم لوٹ رہی تھیں جب ایک جرمن ٹیلی ویژن کے نمائندے نے ان کا راستہ روک لیا۔

کیمرے کے پیچھے چلتے ہوئے رپورٹر نے ان سے سوال کیا: ’آپ کا کیرئیر عروج پر ہے لیکن ایسی افواہیں پھیل رہی ہیں کہ آپ پیدائشی طور پر لڑکا تھیں، اس بارے میں آپ کیا کہیں گی؟‘

اگلا دن جو آرام کا تھا، سیمینیا کو انٹرنیشنل ایسوسی ایشن آف ایتھلیٹکس فیڈریشن (آئی اے اے ایف) کے حکم کے تحت اپنی جنس کی تصدیق کے لیے ٹیسٹ کے مرحلے سے گزرنا پڑا۔ ضابطے کے مطابق اس ٹیسٹ کو خفیہ رکھا جانا تھا، تاہم فائنل دوڑ سے صرف تین گھنٹے پہلے یہ خبر پراسرار طور پر میڈیا میں افشا کر دی گئی۔

اس گمبھیر صورتحال کا سامنا کرتے اور میڈیا میں جاری شور کے باوجود سیمینیا نے فائنل میں عالمی ریکارڈ توڑتے ہوئے گولڈ میڈل اپنے نام کیا۔

سیمینیا کی شکست خوردہ حریفوں کا ردعمل فطری تھا جنہوں نے اس بات کو خوب اچھالا۔

فائنل میں چھٹی پوزیشن پر آنے والی اطالوی ایتھلیٹ ایلیزا کوسمانے سیمینیا کو خوب تنقید کا نشانہ بنایا۔ انہوں نے کہا: ’ایسے لوگوں کو ہمارے ساتھ دوڑ میں شامل نہیں ہونا چاہیے تھا، میرے لیے وہ عورت نہیں بلکہ ایک مرد ہیں۔‘

پانچویں نمبر پر آنے والی روسی کھلاڑی ماریا ساوینوا کا ردعمل اس سے بھی زیادہ توہین آمیز تھا۔ انہوں نے سیمینیا کو نفرت بھری نگاہوں سے گھورتے ہوئے کہا: ’ذرا اس کی طرف تو دیکھو۔‘

ایک طرح سے یہ ردعمل عالمی ایتھلیٹکس چیمپیئن شپ سے پہلے سیمینیا کی جنس کے حوالے سے نجی محفلوں میں ہونے والی چہ مگوئیوں کی  زبانی عکاسی تھی۔ تاہم ایک بات واضح تھی کہ اس سب سے سیمینیا کی عظیم فتح کرکری ہو کر رہ گئی اور یہ سب معاندانہ رویے، تعصب اور جہالت کو ثابت کر رہی تھی۔

 سیمینیا صرف 18 سال کی تھیں، لیکن اس لمحے جب وہ منظر عام پر آئیں تو ایتھلیٹکس کی کھیل والوں نے ان کو صرف ایک ہی نظر سے پرکھا اور اپنے رویوں کو مزید سخت بنا لیا۔ وہ ہر قیمت پر سیمینیا کو روکنا چاہتے تھے۔

آج تقریباً ایک دہائی بعد ایتھلیٹکس آخرکار سیمینیا کو روکنے میں کامیاب ہو ہی گئے۔

 گذشتہ بدھ کو کھیلوں کے لیے ثالثی عدالت نے آئی اے اے ایف کے نئے قوانین کے حق میں فیصلہ دے دیا جس کے مطابق سیمینیا جیسی کھلاڑیوں کو عالمی مقابلوں میں حصہ لینے سے روکا جا سکتا ہے جب تک کہ وہ اپنے جسم میں قدرتی طور پر پائے جانے والے مردانہ ہارمون ٹیسٹاسٹیرون کی سطح کو کم کرنے کے لیے مخصوص ادویات استعمال نہ کریں۔

سیمینیا کا کہنا تھا کہ یہ قواعد و ضوابط امتیاز پرمبنی ہیں۔ ثالثی عدالت نے ان کے ساتھ اتفاق کیا، اور پھر سوچا کہ انہیں اس کی پروا نہیں۔ عدالت نے فیصلہ دیا کہ آئی اے اے ایف کے نئے قواعد منصفانہ مقابلے کو یقینی بنانے کے لیے ’ضروری ہیں۔‘

صرف سیمینیا یا ان کی قانونی ٹیم ہی اس فیصلے سے مایوس نہیں ہوئی بلکہ ورلڈ میڈیکل ایسوسی ایشن نے، جو دنیا بھر میں ڈاکٹروں کی نمائندگی کرتی ہیں، اپنے ارکان پر زور دیا ہے کہ وہ نئے ضوابط کے لاگو کرنے میں ’حصہ نہ لیں ‘ اورصحت مند کھلاڑیوں کی ہارمون تھیراپی سے گریز کریں۔

ورلڈ میڈیکل ایسوسی ایشن کے صدر لیونڈ ایڈلمین نے کہا: ’ہمیں اخلاقی اعتبار سے ان قواعد پر شدید تحفظات ہیں کیوںکہ یہ محض ایک انفرادی مطالعے اور کمزور ثبوت پر مبنی ہیں اور سائنس دان بھی فی الحال اس پر بحث کر رہے ہیں۔‘

خیر، سائنس دان، سائنس کے بارے میں کتنا جانتےہوں گے؟ اور شاید اس کا سب سے زیادہ خوفناک نتیجہ یہ ہے کہ غیر معمولی اصطلاحات اور تصورات جیسے ’سائنس‘، ’حقوق‘، ’انصاف‘ اور ’یکساں مواقع‘کو صرف اسی مقصد کےلیے الٹایا اورگھمایا جارہا ہے تاکہ سیمینیا کو مقابلے سے باہر کیا جاسکے۔ آخر میں یہ سب کچھ تعصب اور ذاتی مفاد کی ہی عکاسی کرتا ہے۔

بہت سے لوگ آپ کو یہ بتائیں گے کہ یہ معاملہ ’انتہائی پیچیدہ‘ ہے۔ یہ ہے بھی اور نہیں بھی۔

 میڈیکل سائنس کے مطابق یہ بتانا مشکل ہے کہ کھلاڑی جنس کے فرق سے غیر منصفانہ فائدہ اٹھا سکتے ہیں یا نہیں۔ ٹیسٹاسٹیرون کی سطح اور کھلاڑی کی صلاحیت کے درمیان کاتعلق ہونا بھی غیر معمولی طور پر پیچیدہ ہے۔ دو مختلف انسانوں میں ایک ہی سطح کے ٹیسٹاسٹیرون سے مختلف نتائج حاصل ہو سکتے ہیں جبکہ ایک ہی جیسے نتائج دینے والے دو انسانوں میں ٹیسٹاسٹیرون کی سطح بھی مختلف ہوسکتی ہے۔

جو کوئی بھی ٹیسٹاسٹیرون کی سطح کو بنیاد بنا کر کسی ایتھلیٹ کی کارکردگی کو کم ظاہر کرنے کی کوشش کرتا ہے وہ نہ صرف غلط سائنس دیکھ رہا ہے بلکہ اس کی نیت بھی اچھی نہیں۔

 

تاہم ایسا بھی نہیں کہ ٹیسٹاسٹیرون بالکل غیرمتعلقہ ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو دوڑ کے تمام فاصلوں کے لیے مرد خواتین کے مقابلے میں دس فیصد تک تیز بھاگنے کے اہل نہ ہوتے۔ اسی لیے یہ سب سے زیادہ غیریقینی ہے کہ آئی اے اے ایف کے قواعد صرف چار سو میٹر سے ایک میل تک کی دوڑوں میں لاگو ہوتے ہیں۔ اگر سیمینیا راتوں رات چار سومیٹر کی بجائے پانچ ہزار میٹر دوڑ میں حصہ لینا چاہیں تو انہیں مکمل طور پر ایسا کرنے کی اجازت دے دی جائے گی۔

اور سیاسی لحاظ سے دیکھا جائے تو بھی ابتدائی طور پر یہ قواعد خواتین کھلاڑیوں کا صرف ایک چھوٹا سا حصہ متاثر کرتے تھے یا شاید صرف ایک ہی خاتون ایتھلیٹ کو نشانہ بنانے کے لیے گھڑے گئے تاکہ سیمینیا کو اس کھیل میں حصہ لینے سے محروم رکھا جا سکے۔ یقیناً اس سے سیمینیا کا پورا کیریئر ایک مبہم اور انتہائی مضحکہ خیز مقصد کے حصول کے لیے قربان کر دیا گیا۔

اسی وجہ سے 2009 میں سیمینیا کے ساتھ روا رکھا جانے والے رویہ ابھی تک اہم ہے۔ یہ تنظیم تقریبا ایک دہائی سے سیمینیا کا کیرئر تباہ کرنے کے لیے پوری کوشش کر رہی ہے۔ ایک خاتون خصوصاً ایک خاتون ایتھلیٹ کو کیسا دکھنا چاہیے اس بارے میں بے رحم تبصرے کیے گئے۔

یہاں تک کہ موجودہ دور میں جب صنفی امتیاز کو زیادہ وسیع پیمانے پر چیلنج کیا جا رہا ہے ایسے واقعات وقوع پذیر ہو رہے ہیں۔ اسی ہفتے امریکی چینل فاکس نیوز نے سیمینیا کو ایک 'خواجہ سرا' کھلاڑی کے طور پر پیش کیا، جو کہ وہ نہیں ہیں۔

لیکن یہ رجحان اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ کیسے امریکہ اور برطانیہ جیسے ممالک میں انتہائی دائیں بازو اور انتہا پسندی کے مبینہ نظریات رکھنے والے عناصر سیمینیا جیسی ڈی ایس ڈی کھلاڑیوں کے خلاف وسیع پیمانے پر اپنا ایجنڈا کامیابی سے آگے بڑھا رہے ہیں۔

ہمارے دور کی سب سے عظیم کھلاڑیوں میں سے ایک کو اس کی جنس کے حوالے سے پیدا کیے گئے ابہام کی بنیاد پر ہماری آنکھوں کے سامنے قربان کیا جا رہا ہے۔

کھیلوں کی ثالثی عدالت کے فیصلے نے طبی، سائنسی اقدار، اخلاقیات، انسانی حقوق اور بنیادی شخصی وقار کو کچل ڈالا ہے۔

یہ ایک کھلاڑی کے، ایک خاتون کھلاڑی کے الفاظ ہیں جو  دوڑنا چاہتی ہیں، اپنی پوری طاقت سے۔

جیسا کہ انہوں نے ایک بار لکھا تھا کہ ’میں کیسٹر سیمینیا ہوں، میں ایک خاتون ہوں اور میں برق رفتار ہوں۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی کھیل