میانمار: ’اقتدار پر قابض فوج ملک کا انتظام سنبھالنے کے قابل نہیں تھی‘

چین، روس اور سلامتی کونسل کے باقی ارکان کے ساتھ دو دن تک جاری رہنے والے مذاکرات کے بعد کونسل نے جمعرات کو متفقہ طور پر میانمار کی تیزی سے بگڑتی صورتحال پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔

ایک اندازے کے مطابق فوج کی کارروائی کے نتیجے میں کم از کم 535 افراد ہلاک ہو چکے ہیں (اے ایف پی)

میانمار میں اقتدار پر قابض فوج کی جانب سے کریک ڈاؤن کے دوران شہریوں کی ہلاکتوں کے بعد برطانیہ نے فوجی حکومت ’جنتا‘ کے خلاف پابندیاں عائد کر دیں جب کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے بھی ملک میں سینکڑوں شہریوں کی ہلاکت کی مذمت کی ہے۔

دوسری جانب باغی فوج نے جمہوریت پسند رہنما آنگ سان سوچی پر نو آبادیاتی دور کے سرکاری راز کا قانون توڑنے کا الزام عائد کیا ہے۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق سوچی کے خلاف ان نئے الزامات کا انکشاف ایک ایسے وقت ہوا ہے جب یکم فروری کو ہونے والی فوجی بغاوت اور فوج کی جانب سے شہریوں کی ہلاکتوں پر بین الاقوامی غم و غصے میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق فوج کی کارروائی کے نتیجے میں کم از کم 535 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔

چین، روس اور سلامتی کونسل کے باقی ارکان کے ساتھ دو دن تک جاری رہنے والے مذاکرات کے بعد کونسل نے جمعرات کو متفقہ طور پر میانمار کی تیزی سے بگڑتی صورتحال پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔

کونسل نے پرامن مظاہرین کے خلاف تشدد کے استعمال اور خواتین اور بچوں سمیت سینکڑوں شہریوں کی ہلاکت کی بھی شدید مذمت کی۔

میانمار میں اقوام متحدہ کی خصوصی ایلچی کرسٹین شورنر برگرنر نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے ایک اجلاس کو بتایا تھا کہ فوج کی جانب سے مظاہرین کے خلاف بڑھتے ہوئے کریک ڈاؤن کی وجہ سے ملک میں ’خون خرابے‘ میں اضافہ ہو رہا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق شرنر برگرنر نے 15 رکنی کونسل کے ایک بند اجلاس کو بتایا کہ میانمار میں یکم فروری کو اقتدار پر قبضہ کرنے والی فوج ملک کا انتظام سنبھالنے کے قابل نہیں تھی اور اس بنیاد پر ملک کی صورتحال مزید خراب ہوگی۔

انہوں نے کونسل پر زور دیتے ہوئے کہا کہ میانمار کے عوام کی بھلائی اور ایشیا کے قلب میں جنم لینے والی تباہی کی روک تھام کے لیے اجتماعی کارروائی کی ضرورت ہے جس کے لیے تمام دستیاب آپشنز پر غور کرنا ہو گا۔

اس سے قبل نوبل انعام یافتہ جمہوری رہنما آنگ سان سوچی کو دارالحکومت کی عدالت میں ویڈیو لنک کے ذریعہ پیش کیا گیا جہاں انہیں ایسے الزامات کا سامنا کرنا پڑا جن کے تحت انہیں سیاسی عہدے سے ہٹایا جاسکتا ہے۔

سماعت میں آٹھ دفاعی وکلا کی باضابطہ تقرری سمیت کیس کے انتظامی پہلوؤں پر غور کیا گیا۔

سوچی کے قانونی نمائندے کُن مونگ زاؤ نے سماعت کے بعد نامہ نگاروں کو بتایا  کہ ویڈیو لنگ میں نظر آنے والی آنگ سان سوچی کی جسمانی حالت بظاہر اچھی دکھائی دے رہی تھی۔

بعد میں انہوں نے اے ایف پی کو بتایا کہ سوچی پر 25 مارچ کو دائر مقدمے میں سرکاری راز کا قانون توڑنے کا الزام لگایا گیا ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا