بلوچستان میں اردو، ’بیوروکریٹ، سیاست دان‘ رکاوٹ؟

بلوچستان میں اردو زبان کا نفاذ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد بھی نہ ہو سکا۔ اردو کے نفاذ کا مطلب کیا ہے، رکاوٹ کون ہے اور کیا ہے؟

(اے ایف پی/ فائل فوٹو)

بلوچستان میں سپریم کورٹ کے احکامات کی روشنی میں اردو کو نافذ کرنے کے لیے دائر درخواست کی سماعت کے دوران چیف جسٹس بلوچستان ہائی کورٹ کا کہنا ہے کہ 50 فیصد ٹھیکیداروں کو انگریزی زبان سمجھ ہی نہیں آتی۔

اردو کے نفاذ سے متعلق درخواست پر ہائی کورٹ کے چیف جسٹس جسٹس جمال خان مندوخیل اور جسٹس کامران ملاخیل پر مشتمل ڈویژنل بیج نے سماعت کی۔ 

اس موقع پر پٹیشن دائر کرنے والے نذیر آغا ایڈووکیٹ نے عدالت کو بتایا کہ بلوچستان حکومت سپریم کورٹ کے فیصلے پر عمل درآمد نہیں کر رہی ہے۔  

انہوں نے عدالت سے استدعا کی کہ اردو کو دفتری اور تعلیمی زبان بنانے کے لیے سپریم کورٹ کے فیصلے پر عمل درآمد کیا جائے۔

ایڈووکیٹ نذیر آغا کا کہنا تھا کہ ’وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال اس فیصلے پر عمل درآمد کرانے میں دلچسپی نہیں لے رہے ہیں۔` 

وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال کی جانب سے ایڈووکیٹ جنرل ارباب طاہر کاسی عدالت میں پیش ہوئے جنہوں نے موقف اختیار کیا کہ اکیڈمی ادبیات پاکستان، بلوچی، پشتو اور براہوی اکیڈمیوں کو حکومت زبانوں کی ترویج کے لیے فنڈز دیتی ہے۔ اردو زبان میں مختلف مواد کے ترجمے کے لیے اکیڈمیوں سے پوچھا جائے۔ 

چیف جسٹس بلوچستان ہائی کورٹ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ 50 فیصد ٹھیکیداروں کو انگریزی زبان نہیں آتی، حکومت اخبارات میں اشتہارات اردو زبان میں شائع کرنے کے لیے اقدامات اٹھائے، روز مرہ کے معمولات اردو میں چلانے کے لیے حکومتی وکیل عدالت میں جواب جمع کرائیں۔‘ 

جس پر ایڈووکیٹ جنرل نے عدالت سے استدعا کی کہ حکومت کو جواب جمع کرانے کے لیے وقت دیا جائے۔ 

نذیر آغا ایڈووکیٹ نے موقف اختیار کیا کہ پبلک سروس کمیشن کے امتحانات اردو زبان میں لیے جائیں۔ ان کا کہنا تھا کہ سی ایس ایس میں بڑی تعداد میں طلبہ و طالبات انگلش کے پرچے میں فیل ہو جاتے ہیں۔ 

انہوں نے کہا کہ ابتدائی طور بلوچستان ہائی کورٹ سائلین کی سہولت کے لیے اردو زبان میں نوٹسز اور فیصلے تحریر کرنا شروع کر دے۔ 

بعد میں سید نذیر آغا ایڈووکیٹ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ انہوں نے دیکھا کہ عدالت یا دوسری جگہوں پر آنے والے اکثر افراد کو انگریزی نہیں آتی، ’انہیں کوئی چیز انگریزی میں دی جائے تو وہ لوگوں کے آگے پیچھے پھرتے ہیں کہ انہیں بتایا جائے کہ اس میں کیا لکھا ہے۔‘ 

ان کا کہنا تھا کہ اردو کے حوالے سے 2015 میں سپریم کورٹ کا فیصلہ بھی آچکا ہے جس میں وفاقی حکومت اور صوبوں کو اردو کے نفاذ کے لیے طاقت استعمال کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ 

’دوسری جانب ہم دیکھتے ہیں کہ آئین کا آرٹیکل 257 ہے جس میں کہا گیا ہے کہ اردو پاکستان کی قومی زبان ہے اور تمام چیزیں اردو میں ہونی چاہیں۔ اس کے ساتھ یہ بھی لکھا ہے کہ اردو کو برقرار رکھتے ہوئے جو صوبوں میں مقامی زبانیں ہیں ان کو بھی فروغ دیا جائے۔‘ 

 نذیر آغا کہتے ہیں کہ ’بہت سے لوگوں کو اردو کو کم آتی ہے اور انگریزی  ان کے بس سے باہر ہے۔  گوادر پنجگور، پشتون بیلٹ ہے، ان میں اکثر لوگوں کو انگریزی سمجھنے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اگر ہم اوسط نکالیں تو سو میں سے دو فیصد کو انگریزی آتی ہے۔‘ 

’ہمارے آئین کا آرٹیکل 251 واضح طور پر کہتا ہے کہ پاکستان کی قومی زبان اردو ہے۔ تمام دفتری امور اردو میں ہونے چاہییں۔‘ 

دوسری جانب معروف شاعر دانشور اور سابقہ سربراہ ادارہ فروغ قومی زبان اکادمی ادبیات کے افتخارعارف سجھتے ہیں کہ اردو کے نفاذ کے حوالے سے سپریم کورٹ نے تو بڑے واضح احکامات دیے ہیں جس میں لکھا ہے کہ اردو کے نفاذ کا کام حکومت کو کرنا ہے یہ ادارے کا کام نہیں ہے۔

’قائد اعظم نے تو اس حوالے سے بعد میں کہا تھا۔ ان سے قبل آل انڈیا مسلم لیگ نے جو وقتاً فوقتاً قراردادیں پاس کی تھیں ان میں لکھا ہے کہ اردو ہی پاکستان کی قومی زبان ہوگی۔‘ 

  اردو کے نفاذ کا مطلب کیا ہے؟

افتخار عارف کہتے ہیں کہ اردو کے نفاذ کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ ہم انگریزی کا متبادل لانا چاہتے ہیں۔ ’ہم انگریزی کو روزمرہ کے کاروبار سے الگ کرنا چاہتے ہیں، انگریزی کو بحیثیت اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے بروئے کار لانا چاہتے ہیں۔ کیوں کہ جو علوم امریکہ یورپ، جرمنی میں پڑھائے جاتے ہیں اس کے حصول کے لیے انگریزی لازم ہے۔‘ 

’مگر بنیادی تعلم اردو میں دینی چاہیے، جس طرح ایران میں فارسی، چین میں چینی، کوریا میں کورین، ترکی میں ترک زبان اور سعودی عرب میں عربی میں دی جاتی ہے۔‘ 

ان کا کہنا ہے کہ اب یہ ہو رہا ہے جیسے ہندوستان اور سویت یونین میں تھا، ٹرائنگل فارمولہ ہے۔ جس میں بچے کو ایک قومی، دوسری مادری اور تیسری عالمی زبان جو انگریزی ہے وہ پڑھائی جاتی ہے۔ 

افتخار عارف کے بقول ہندوستان میں یہ فارمولا رائج ہے اور وہاں کے بچے تینوں زبانوں میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ تعلیم کی زبان انگریزی ہے جو لنگوا فرنکا ہے۔ اعلیٰ تعلیم جو انگریزی میں ہے وہ جدید علوم کے حصول کے لیے ضروری ہے۔ 

رکاوٹ کون ہے؟

ماہرین کے خیال میں اردو کا نفاذ مشکل نہیں لیکن اس کی راہ میں رکاوٹ ’بیوروکریٹ‘ ہیں جو نہیں چاہتے کہ اردو کا نفاذ ہو۔‘ 

افتخار عارف نے بتایا کہ بیوروکریسی کی رکاوٹ ایسی ہے جیسے کسی زمانے میں ہندوؤں میں پنڈت ہوا کرتےتھے۔ جو لوگوں کو سسنکرٹ پڑھنے نہیں دیتے تھے اور چاہتے ہیں کہ ان کا عوام سے رشتہ کٹا رہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

وہ کہتے ہیں کہ قومی سطح پر یہ کام ایک دن میں نہیں ہوسکتا، اس میں وقت لگتا ہے۔ اب بھی بہت سا کام ہوچکا ہے۔  

انہوں نے بتایا کہ اردو اصل میں لنگوافرنکا ہے جو ایسی زبان کو کہتے ہیں جس کو سب سمجھتے ہیں۔ جیسے اگر بلوچستان کا کوئی بندہ پنجاب آتا ہے تو اسے پنجابی نہیں آتی تو وہ اردو کا سہارا لیتا ہے۔ کوئی پشتون اگر سندھ جاتا ہے تو اسے سندھی نہیں آتی تو اسے اپنا مدعا بیان کرنے کے لیے اسی زبان کا سہارا لینا پڑتا ہے۔ 

رکاوٹ کیا ہے؟

افتخارعارف کہتے ہیں کہ اردو کے نفاذ کی راہ میں ایک مسئلہ سیاست بھی ہے۔ ’سیاستدان اپنے سیاسی مفادات حاصل کرنے کے لیے تعصبات کو بڑھاوا دیتے ہیں۔‘

انہوں نے بتایا کہ پاکستان میں 76 زبانیں بولی جاتی ہیں۔ اب سب کو قومی زبان نہیں بنایا جاسکتا، اس کے باوجود کہ یہ سب جیسے بلوچی، براہوی، پنجابی، سندھی اور پشتو پرانی زبانیں ہیں، اردو ان کے مقابلےمیں نئی زبان ہے لیکن یہ لنگوافرنکا ہے۔ 

ان کا مزید کہنا تھا کہ اسی طرح میں نے دیکھا کہ چین اور تہران میں ہر جگہ بورڈ لگے ہیں کہ یہاں انگریزی زبان سکھائی جاتی ہے۔ 

افتخارعارف کہتے ہیں کہ جس طرح ہماری روزمرہ زبان میں بہت سے ایسے الفاظ جو بنیادی طور پر انگریزی کے ہیں استعمال ہو رہے ہیں۔ جیسے موبائل، ایس ایم ایس، بلڈ پریشر، ہسپتال، سرجری، آپریشن، بائی پاس وغیرہ یہ سب ہمارے نہیں ہیں لیکن ہماری زبان کا حصہ بن چکے ہیں۔ 

انہوں نے بتایا کہ اگر اردو کا نفاذ علمی مسئلہ ہے تو اسے ماہرین بیٹھ کر حل کرسکتے ہیں لیکن اس کے لیے سیاسی لوگوں اور علمی دونوں کو مل بیٹھ کر راستہ نکالنا ہوگا کیوں اگر علمی طور پر یہ طے ہو جاتا ہے لیکن وہاں سیاستدان نہیں ہوں گے تو اس پرعمل درآمد کون کروائے گا؟ 

انہوں نے کہا کہ ’بنیادی طور پر ہماری نیت نہیں ہے ہم ابھی بھی انگریزی کی غلامی چاہتے ہیں۔‘ 

وہ مزید کہتے ہیں کہ میں سروس کمیشن کے امتحانات میں بھی رہا ہوں وہاں میں نے دیکھا کہ بلوچستان کے علاقے پشین کا بچہ ویسی انگریزی نہیں بول سکتا جیسی کراچی یا اسلام آباد، لاہور کا بچہ بول سکتا ہے۔ 

’اس کی وجہ یہ ہے کہ اس نے کسی بیکن ہاؤس سے تعلیم حاصل نہیں کی اس کے گھر یا دوستوں میں کوئی نہیں جو اس کے ساتھ انگریزی میں بات کر سکے اس لیے وہ رہ جاتا ہے اور جو فرافر انگریزی بولتا ہے وہ پاس ہو جاتا ہے۔ وہی ہم پر حکومت کرتے ہیں۔‘ 

مسئلہ کس طرح حل ہوگا؟

افتخار عارف تجویز کرتے ہیں کہ اس کے لیے مقامی اور قومی زبان اردو کے درمیان اور اس کے بولنے والوں کے درمیان فاصلوں کو کم کیا جائے۔ دوسری بات یہ کہ فیڈریشن کی سوچ کے مطابق کام کیا جائے۔ 

انہوں نے کہا کہ جب تک ہماری مقامی زبانیں اور ان کے بولنے والوں کو یہ یقین دہانی نہیں کرائی جاتی کہ ان کو اور ان کی زبان کو اس عمل سے کوئی خطرہ نہیں اس وقت تک مسئلہ برقرار رہے گا۔ 

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان