امت اخبار میں عورت مارچ کے خلاف نازیبا الفاظ پر احتجاج

روزنامہ امت میں پیر کو اخبار کے پہلے صفحے پر ایک خبر شائع کی گئی، جس میں مختلف ممالک میں جنسی زیادتیوں کے کیسوں کا ذکر کرنے کے ساتھ ساتھ عورت مارچ میں شریک خواتین کے لیے بھی نازیبا الفاظ استعمال کیے گئے۔

کراچی یونین آف جرنلسٹس نے بھی روزنامہ امت میں خواتین کے بارے میں ’غیر اخلاقی اور توہین آمیز زبان‘ استعمال کرنے کی مذمت کرتے ہوئے اسے صحافتی اخلاقیات کے منافی قرار دیا ہے  (تصویر: بشکریہ میڈیا اونر شپ مانیٹر پاکستان)

کراچی سے شائع ہونے والے اردو اخبار روزنامہ ’امت‘ میں چھپنے والی ایک خبر میں خواتین کے حوالے سے نازیبا الفاظ استعمال کیے جانے پر خواتین اور صحافتی تنظیموں میں شدید غصہ پایا جاتا ہے اور ان تنظیموں کے رہنماؤں نے اخبار کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔

 روزنامہ امت میں پیر کی اشاعت میں اخبار کے پہلے صفحے پر اسلام آباد سے ’وقائع نگار خصوصی‘ کی جانب سے جنسی زیادتیوں پر ایک خبر شائع کی گئی، جس میں امریکہ، جاپان، جنوبی افریقہ، بھارت، بنگلہ دیش اور افریقی ممالک میں ہونے والی جنسی زیادتیوں کے کیسوں کا ذکر کرنے کے ساتھ ساتھ حالیہ عورت مارچ میں شریک خواتین کے لیے بھی *ر۔۔۔* جیسے نازیبا الفاظ استعمال کیے گئے۔

انڈپینڈنٹ اردو کی جانب سے متعدد بار اخبار کی انتظامیہ سے ان کا موقف جاننے کی کوشش کی گئی، تاہم اخبار کے ایڈیٹر انچیف عبدالرفیق افغان بات نہ ہوسکی۔  دوسری جانب اخبار کے عملے کے ایک رکن نے یہ کہہ کر تبصرہ کرنے سے انکار کردیا کہ ’یہ ایک حساس معاملہ ہے اور مالکان کی اجازت کے بغیر وہ اس پر بات نہیں کرسکتے۔‘

دوسری جانب اخبار میں چھپنے والے ان الفاظ پر اپنا ردعمل دیتے ہوئے کراچی پریس کلب کے صدر فاضل جمیلی نے اسے ’افسوس ناک‘ قرار دیا۔

انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں انہوں نے کہا: ’ہم صحافیوں کو بنیادی تربیت میں زبان کا استعمال سکھایا جاتا ہے اور اسی لیے عام طور پر ’اخباری زبان‘ کی اصطلاح کا استعمال کیا جاتا ہے، مگر جب ایک اخبار بازاری زبان استعمال کرے تو اس کی مذمت کرنے کے لیے میرے پاس الفاظ نہیں ہیں۔ یہ انتہائی افسوس ناک ہے۔‘

فاضل جمیلی کا مزید کہنا تھا: ’ہمارا مذہب اور تہذیب خواتین کے خلاف ایسی زبان کی اجازت نہیں دیتی۔ ہم تو گفتگو میں بھی خواتین کے لیے ایسی زبان استعمال نہیں کرتے تو اخبار میں کس طرح ایسے الفاظ استعمال کیے جاسکتے ہیں؟‘

ساتھ ہی انہوں نے اخبار کے خلاف ایکشن لینے اور جرمانہ عائد کرنے کا بھی مطالبہ کر ڈالا۔

دوسری جانب عورت مارچ کراچی کی رہنما قرت مرزا نے اسے ’ناقابل برداشت‘ قرار دیا۔ انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں انہوں نے کہا: ’ایک اخبار کی جانب سے خواتین کے خلاف اس طرح کے الفاظ استعمال کرنا ناقابل برداشت ہے۔ صحافتی تنظیموں کو اخبار کے خلاف فوری ایکشن لینا چاہیے۔ عورت مارچ، تحریک نسواں، ویمن ایکشن فورم اور دیگر خواتین تنظیمیں آپس میں بیٹھ کر بات چیت کررہی ہیں کہ کیس داخل کرایا جائے یا اخبار کے خلاف کوئی احتجاج کیا جائے، اس کا جلد ہی اعلان کیا جائے گا۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس حوالے سے ویمن ایکشن فورم کی رہنما انیس ہارون کہتی ہیں کہ امت اخبار نے ایسا پہلی بار نہیں کیا ہے، بلکہ اس سے پہلے بھی خواتین کے حوالے سے ناشائستہ زبان استعمال کی ہے۔

انڈپیندنٹ اردو سے گفتگو میں انیس ہارون نے کہا: ’سب کو پتہ ہے کہ اس اخبار کو کہاں سے سپورٹ ملتی ہے۔ یہ فسادی لوگ ہیں، ایک اخبار کو تھوڑی تمیز ہوتی ہے۔ ہم خواتین کے لیے ایسے الفاظ استعمال کرنے کی شدید مذمت کرتے ہیں اور آل پاکستان نیوز پیپر سوسائٹی، پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس اور پیمرا سمیت مختلف اداروں کو ایسے الفاظ پر نہ صرف نوٹس بلکہ اخبار کے خلاف سخت ایکشن لینا چاہیے۔‘

پاکستان میں میڈیا کے حقوق و آزادی سے متعلق کام کرنے والی غیرسرکاری تنظیم میڈیا میٹرز فار ڈیموکریسی کی شریک بانی صدف خان نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں اس وقعے کی مذمت کرتے ہوئے کہا: ’ایسی زبان کا بالکل بھی استعمال نہیں ہونا چاہیے کیوں کہ اخبار عوام کے لیے چھاپا جاتا ہے تو اس طرح ایک ادارتی ذمہ داری ہوتی ہے، جس میں یہ دیکھا جائے کہ اس قسم کے الفاظ نہ لکھے جائیں۔ ایسے الفاظ یہ تاثر دیتے ہیں کہ یہ پہلے سے جاری عورت مارچ کی رہنماؤں کے خلاف مہم کا حصہ ہے۔‘

کراچی یونین آف جرنلسٹس (کے یو جے) نے بھی روزنامہ امت میں خواتین کے بارے میں ’غیر اخلاقی اور توہین آمیز زبان‘ استعمال کرنے کی مذمت کرتے ہوئے اسے صحافتی اخلاقیات کے منافی قرار دیا ہے۔  

کے یو جے کے صدر اعجاز احمد، نائب صدر لبنیٰ جرار، جنرل سیکریٹری عاجز جمالی، جوائنٹ سیکرٹری رفیق بلوچ اور کراچی یونین آف جرنلسٹس کی ایگزیکٹو کونسل کے اراکین نے پیر کی شام اپنے ایک بیان میں کہا: ’کے یو جے نے ہمیشہ آزادی اظہار پر کسی بھی قسم کی مصلحت اختیار نہیں کی، لیکن امت اخبار نے جو زبان لکھی ہے وہ نہ تو آزادی اظہار کے دائرے میں آتی ہے اور نہ ہی صحافتی اقدار کے، اور نہ ہی صحافتی اخلاقیات کسی بھی اخبار کو اس طرح کے بے ہودہ الفاظ لکھنے کی اجازت دیتی ہیں۔‘

بیان میں مزید کہا گیا: ’کے یو جے سمجھتی ہے کہ یہ صحافیوں اور صحافت کو بدنام کرنے کی کوشش اور اخبارات کے قوانین کی بھی خلاف ورزی ہے کیونکہ اس طرح کے عمل کی وجہ سے معاشرے کے مختلف طبقات کے درمیان فساد اور فتنہ پھیلنے کا خدشہ ہے۔ اسلام بھی کسی صورت میں ایسے عمل کی اجازت نہیں دیتا، جس سے معاشرے میں فساد اور بد امنی پھیل سکے۔‘

کے یو جے نے حکومت سندھ سے مطالبہ کیا ہے کہ مذکورہ اخبار کو نوٹس دیا جائے اور وضاحت لی جائے کہ خواتین کے خلاف اس طرح کے الفاظ کس طرح شائع کیے گئے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان