کرونا: متاثرہ اضلاع میں تعلیمی ادارے 28 اپریل تک بند

پاکستان میں کرونا وائرس کی تیسری لہر کی موجودہ صورتحال کے پیش نظر ملک کے متاثرہ اضلاع میں پہلی سے آٹھویں جماعت تک سکول بند رکھنے کا اعلان کیا گیا ہے۔

کرونا ئرس کے کیسز زیادہ ہیں پہلے ہی تعلیمی ادارے 11 اپریل تک بند کیے جا چکے ہیں (اے ایف پی)

پاکستان میں کرونا وائرس کی تیسری لہر کی موجودہ صورتحال کے پیش نظر ملک کے متاثرہ اضلاع میں پہلی سے آٹھویں جماعت تک سکول بند رکھنے کا اعلان کیا گیا ہے۔

وفاقی وزیرِ تعلیم شفقت محمود نے نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر (این سی او سی) کے اجلاس کے بعد ایک پریس کانفرنس میں اعلان کیا کہ پہلی سے آٹھویں تک کلاسیں 28 اپریل تک بند رکھنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اس دوران پہلی سے آٹھویں جماعت تک کے بچوں کی آن لائن کلاسز جاری رہیں گی۔

انہوں نے بتایا کہ نویں سے 12ویں تک کلاسیں جن کا امتحان ہونا ہے، انہیں 19 اپریل تک سکولوں میں مرحلہ وار طریقے سے آنے کی اجازت دی جائے گی تاکہ وہ اپنا کورس مکمل کر سکیں۔ چاہے وہ متاثرہ اضلاع ہی کیوں نہ ہوں۔

وزیر تعلیم نے مزید بتایا کہ متاثرہ علاقوں کے حوالے سے فیصلہ صوبوں کو خود ہی کرنا ہوگا۔ انہوں نے ایسا اس لیے کیا گیا ہے کیوں کہ پاکستان کے تمام علاقے کرونا وائرس سے ایک ہی طرح متاثر نہیں ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ اس حوالے سے 28 اپریل کو دوبارہ صورتحال کا جائزہ لیا جائے گا کہ آیا تعلیمی اداروں کو عید تک بند رکھا جائے یا نہیں۔

خیال رہے کہ اس سے قبل پاکستان کے مختلف علاقوں میں سکول 11 اپریل تک بند کرنے کا اعلان کیا گیا تھا۔

امتحانات

وزیر تعلیم شفقت محمود نے امتحانات کے حوالے سے بتایا کہ نویں، دسویں، 11ویں اور 12ویں جماعت کے  تقریباً 40 لاکھ بچے  پورے پاکستان میں امتحانات دیتے ہیں۔ ’لہذا اس حوالے سے فیصلہ ہوا ہے کہ نویں تا 12ویں جماعت امتحانات ہوں گے، چونکہ یہ مقامی امتحانات ہیں، انہیں مئی کے تیسرے ہفتے میں لے جایا جائے گا۔ اعلان کردہ ڈیٹ شیٹ کو آگے لے جایا جائے گا۔‘

اس کے علاوہ یونیورسٹیوں سے درخواست کی گئی ہے کہ وہ داخلے کی تاریخ آگے کر دیں، تاکہ بچے حصہ لے سکیں۔

دوسری جانب انہوں نے کہا ک ملک میں 85 ہزار بچے اے اور او لیول کے امتحانات دے رہے ہیں۔ اس حوالے سے تمام وزرا نے ’تجویز دی کہ یہ امتحانات جاری رہیں کیوں کہ ان کی تعداد کم ہے اور کیمبرج کے ساتھ طے ہوا ہے کہ چھ فٹ کے فاصلے پر ڈیسک لگائے جائیں گے۔‘

پاکستان میں کرونا وائرس کی تیسری لہر کی شدت میں مزید اضافہ دیکھا جا رہا ہے جس کے باعث حکومت کے لیے تعلیمی اداروں، معاشی سرگرمیوں اور لاک ڈاؤن کے حوالے سے فیصلے کرنا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔

ملک میں گذشتہ 24 گھنٹوں کے دروان مزید 103 افراد کرونا وائرس کے باعث ہلاک ہو گئے ہیں جبکہ تین ہزار سے زائد افراد میں کرونا وائرس کی تصدیق ہوئی ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

جس کے بعد پاکستان میں اب تک کرونا وائرس سے ہلاک ہونے والے افراد کی کل تعداد 14924 ہو گئی ہے۔ اب تک ملک میں کرونا وائرس کے چھ لاکھ 96 ہزار سے زائد کیسز سامنے آ چکے ہیں۔

این سی او سی کے اجلاس میں رمضان کے حوالے سے بھی فیصلے لیے جانے ہیں جس کا اعلان کچھ دیر بعد کیے جانے کا امکان ہے۔

دوسری جانب سندھ کے وزیر تعلیم سعید غنی نے کہا ہے کہ صوبہ سندھ میں آٹھویں جماعت تک تدریس کا عمل آئندہ 15 روز کے لیے معطل کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

اس کے علاوہ انہوں نے بین الصوبائی ٹرانسپورٹ، ٹرین اور ہوئی سفر جاری رکھنے پر خدشات کا اظہار کرتے ہوئے پنجاب، خیبرپختونخوا اور بلوچستان سے بین الصوبائی ٹرانسپورٹ، ٹرین اور ہوائی سفر بند کرنے کا مطالبہ بھی کیا ہے۔

ویکسین کی صورتحال

پاکستان میں کرونا وائرس سے بچاؤ کے لیے 50 سال سے زائد عمر کے افراد کے لیے ویکسینیشن کا عمل جاری ہے۔ تاہم پرائیویٹ ویکسین کی قیمتوں کے حوالے سے اب بھی ملک میں بحث جاری ہے۔

سینیٹ میں اس حوالے سے گذشتہ روز ہونے والے اجلاس میں کرونا ویکسین کی مفت یا اصل قیمت پر فراہمی سے متعلق قرارداد اکثریت رائے سے منظور کروالی گئی ہے۔

جمعیت علمائے اسلام ف کے سینیٹر کامران مرتضیٰ کی جانب سے پیش کی گئی قرارداد میں کہا گیا تھا کہ اکثر ممالک میں شہریوں کو کرونا ویکسین مفت لگائی جا رہی ہے جبکہ پاکستان میں ویکسین بہت مہنگی ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ ’پاکستان نے ویکسین منگوانے کے لیے نجی کمپنی کو ٹھیکہ دے رکھا ہے۔ پاکستان میں ویکسین کی قیمت آٹھ ہزار 400 روپے ہے جبکہ دیگر ممالک میں ویکسین کی قیمت 1500 روپے ہے۔ یہ آئین کے آرٹیکل 38 کی خلاف ورزی ہے، جس میں واضح ہے کہ ریاست اپنے شہریوں کو بنیادی حقوق فراہم کرے، لہٰذا حکومت کو اپنے فیصلے پر نظرثانی کرنی چاہیے۔‘

دوسری جانب ہزاروں افراد نے گذشتہ ہفتے کمرشل بنیادوں پر فروخت ہونے والی کرونا ویکسین کی خوراکیں لگوائیں جبکہ کراچی کے ویکسین سینٹرز کے مطابق رش کی وجہ سے ان کے پاس روسی ویکسین ختم ہو چکی ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی صحت