پاکستان کی حکمران جماعت تحریک انصاف کے رہنما جہانگیر خان ترین کا سیاسی کردار ہمیشہ سے اہمیت کا حامل رہا ہے۔ حتیٰ کہ پارٹی اقتدار میں آئی تو انہیں ’ڈیفیکٹو وزیر اعظم‘ سمجھا جاتا تھا۔ لیکن گذشتہ ایک سال سے وہ خاموش دکھائی دیے خاص طور پر جب سے مئی میں چینی بحران سے متعلق وزیر اعظم کے حکم پر بنائی گئی فرانزک رپورٹ سامنے آئی جس میں ان کا نام بھی شامل تھا۔
اسی دوران وہ برطانیہ چلے گئے اور تنقید ہوتی رہی کہ چینی بحران کے ذمہ داروں کو سزا نہیں دی جا رہی کیونکہ اس میں جہانگیر ترین شامل ہیں۔
لیکن گذشتہ ہفتے جہانگیر ترین اور ان کے بیٹے علی ترین کے خلاف وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے )کی جانب سے مالیاتی فراڈ اور منی لانڈرنگ جیسے سنگین جرائم کے تین مختلف مقدمات درج کیے گئے۔ اس معاملہ میں ان سمیت شوگر ملز پر سٹہ کے ذریعے چینی کی قیمتیں بڑھانے کا الزام بھی عائد کیا گیا اور وزیر اعظم نے سٹہ کے ذریعے قیمتیں بڑھانے والوں کے خلاف سخت کارروائی کا اعلان بھی کیا۔
پیپلز پارٹی کی رہنما شہلارضا نے منگل کو ایک ٹویٹر پیغام میں دعویٰ کیا کہ جہانگیر ترین کی پی پی پی رہنما مخدوم احمد محمود سے ملاقات ہوئی ہے اور چند دن میں وہ کراچی میں سابق صدر آصف علی زرداری سے ملاقات کر کے پی ٹی آئی چھوڑنے اور پیپلز پارٹی میں شمولیت کا اعلان کریں گے جس کی جہانگیر ترین نے تردید کر دی اور کچھ دیر بعد یہ ٹویٹ بھی ڈیلیٹ کر دی گئی۔
ترین کی پیشی کاسیاسی تاثر
بینکنگ جرائم کی عدالت کے جج امیر محمد خان نے جہانگیر ترین اور ان کے بیٹے علی ترین کی درخواست کی سماعت پر دونوں ملزمان اور ایف آئی اے سے ریکارڈ طلب کیا تھا۔
جہانگیر ترین اور علی ترین حکومتی اراکین اسمبلی سمیت اپنے وکلا کے ہمراہ بدھ کو پیش ہوئے۔ ان اراکین اسمبلی میں راجہ ریاض ،نعمان لنگڑیال،نذیر بلوچ ،سلیمان نعیم ،غلام بی بی بھروانہ اور خرم لغاری، چوہدری افتخار گوندل ، اسلم بھروانہ،طاہر رندھاوا اور امیر محمد خان شامل تھے۔
تاہم جج کی غیر حاضری کے باعث عدالتی عملہ نے درخواست پر 10اپریل تک پیشی ملتوی کر دی۔
جہانگیر ترین نے کئی ماہ بعد طویل خاموشی باالآخر توڑ ڈالی اور کئی سوال اٹھائے۔ پیشی کے بعد انہوں نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کھل کر گلے شکوے کیے۔
انہوں نے کہا کہ ’میری وفاداری کا امتحان لیا جا رہا ہے، یہ کیا ہو رہا ہے؟ انہیں سب شوگر ملز میں صرف جہانگیر ترین نظر آیا؟ تحریک انصاف سے انصاف مانگ رہے ہیں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
جہانگیر ترین نے کہا کہ ’میں تو دوست تھا، دشمنی کی طرف کیوں دھکیل رہے ہو؟‘
’میرے اور میرے بیٹے کے اکاؤنٹس منجمد کر دیے گئے۔ انہوں نے کہا کہ اکاؤنٹ کیوں منجمد کیے؟ اس سے کیا فائدہ ہوگا؟ اور یہ سب کون کر رہا ہے؟ وقت آگیا ہے کہ انتقامی کارروائی کو بےنقاب کیا جائے، تحریک انصاف میں شامل ہوں اور رہوں گا۔‘
انہوں نے کہا کہ میری راہیں تحریک انصاف سے جدا نہیں ہوئیں کون لوگ ہیں جنہوں نے مجھے خان صاحب سے دور کر دیا؟
ان سے پوچھا گیا کہ کیا آپ حکومتی اراکین کو اپنی سیاسی طاقت ظاہر کرنے کے لیے ساتھ لائے؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ سب اراکین خود ان کے ساتھ آئے ہیں انہوں نے کسی کو دعوت نہیں دی۔
جہانگیر ترین کا پی ٹی آئی میں کردار اور مخالفت
جب 2018میں پی ٹی آئی کامیاب ہوئی تو وفاق اور پنجاب میں حکومتوں کے قیام میں بھی جہانگیر ترین کا نام گونچتا رہا۔
اپوزیشن کے دوران پی ٹی آئی انٹرا پارٹی الیکشن ہوں، سابق حکومت مخالف تحریک ہو یا خیبر پختونخوا میں حکومت چلانے کا مرحلہ وہ وزیر اعظم عمران خان کے ساتھ پیش پیش نظر آئے۔ پارٹی کے جنرل سیکرٹری کی حیثیت سے تمام اہم فیصلوں میں ان کی رائے سب سے اہم سمجھی جاتی تھی۔
جب 2018 کے انتخابات میں حصہ لینے کے لیے امیدواروں کا چناؤ کیا گیا تو ٹکٹوں کے اجرا اور الیکٹ ایبلز کی پارٹی میں شمولیت کے موقع پر بھی جہانگیر ترین پیش پیش رہے۔ اپوزیشن کی جانب سے تنقید بھی کی جاتی رہی کہ ترین کے جہاز پر حکومت تشکیل دی جارہی ہے۔ آزاد اراکین کی پی ٹی آئی میں شمولیت ہو یا اتحادی جماعتوں سے معاملات طے کرنا ہوتے تب بھی ان کو ذمہ داری سونپی جاتی تھی۔
پارٹی میں ان کی اس نمایاں حیثیت پر اپوزیشن تو تنقید کرتی ہی تھی کہ وہ حکومتی اجلاسوں میں کس حیثیت سے بیٹھتے ہیں جبکہ ان کے پاس کوئی سرکاری عہدہ نہیں دوسرا یہ کہ انہیں سپریم کورٹ نااہل قرار دے چکی ہے پھر وہ اہم کیوں ہیں؟
ان سے متعلق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے تو شروع سے ہی علیحدہ گروپ بنا رکھا ہے مگر جب اسد عمر وزارت خزانہ کے عہدے سے الگ ہوئے تب بھی جہانگیر ترین کو اس کا موجب قرار دیا گیا۔ اس کے علاوہ وزیر اعظم کے پرنسپل سیکرٹری اعظم خان سے بھی ان کے اختیارات سے متعلق بیوروکریسی میں تبادلوں پر مخالفت کی خبریں گردش کرتی رہیں۔
اس سے پہلے جب پی ٹی آئی اپوزیشن میں تھی تب بھی ان کے حامیوں کو خاص عہدے دیے جاتے اور ہر پارٹی فیصلہ ان کی رائے کا محتاج ہوتا تھا۔ انٹرا پارٹی انتخابات میں جب دھاندلی کا الزام لگا تو بطور پارٹی چیئرمین عمران خان نے جسٹس (ر)وجیہ الدین کی سربراہی میں ٹربیونل بنایا جنہوں نے تحقیقات کے بعد دھاندلی کے الزامات کو درست قرار دے کر اپنے فیصلے میں جہانگیر ترین گروپ کو ذمہ دار ٹھہرایا اور جہانگیر ترین، علیم خان، پرویز خٹک اور نادر مگسی کو پیسوں کی لالچ دے کر پارٹی عہدے حاصل کرنے پر پارٹی سے نکالنے کا اعلان بھی کیا تھا لیکن اس فیصلہ پر عمل درآمد کی بجائے ٹربیونل کو ہی ختم کر دیا گیا تھا جو وجیہ الدین گروپ کے پی ٹی آئی سے علیحدگی کا سبب بھی بنا تھا۔