حریم فاطمہ قتل کیس: ملزمہ نے بچی کے والد اور چچا پر الزام لگا دیا

تھانہ محمد ریاض شہید کوہاٹ کے ایس ایچ او محمد افضل کے مطابق: ’ملزمہ نے اقبال جرم میں کہا ہے کہ قتل کی وجہ یہ تھی کہ ان کے مقتولہ بچی کے چچا کے ساتھ تعلقات تھے اور اسلام آباد میں مقیم بچی کے والد بھی انہیں فون کالز کرکے سبز باغ دکھاتے اور تنگ کرتے رہے۔‘

تحقیقات سے عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے مقتولہ کے خاندان اور عمائدین علاقہ نے منگل (چھ اپریل) کو ایک احتجاجی مظاہرہ بھی کیا(تصویر: بشکریہ خیبر پختونخوا پولیس)

صوبہ خیبر پختونخوا کے جنوبی ضلع کوہاٹ میں 24 مارچ کو چار سالہ بچی حریم فاطمہ کے قتل کیس نے ایک نیا موڑ لے لیا ہے اور پولیس کے مطابق گرفتار ہونے والی ملزمہ نے اپنے بیان میں الزام مقتولہ کے والد اور چچا پر عائد کردیا ہے۔

دوسری جانب تحقیقات سے عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے مقتولہ کے خاندان اور عمائدین علاقہ نے منگل (چھ اپریل) کو ایک احتجاجی مظاہرہ بھی کیا، جس میں انہوں نے موقف اختیار کیا کہ پولیس تاخیری حربے استعمال کرتے ہوئے بچی کے خاندان والوں پر دباؤ ڈال رہی ہے کہ وہ نامزد ملزمہ پر دفعہ 164 کے تحت دعویداری کریں۔

واضح رہے کہ چار سالہ حریم فاطمہ 24 مارچ کو کوہاٹ میں واقع خٹک کالونی سے دن دو بجے لاپتہ ہوئی تھیں، جس کے بعد بچی کے دادا فرہاد حسین نے ریاض شہید تھانہ کوہاٹ میں گمشدگی کی اطلاع دی تھی۔ اگلی صبح حریم کی لاش گھر سے ایک کلومیٹر کے فاصلے پر موجود نالے کے پاس برآمد ہوئی تھی۔

اس واقعے کی تحقیقات کے دوران کوہاٹ پولیس نے مستعدی دکھاتے ہوئے جائے وقوعہ کے پاس والی عمارت کے سی سی ٹی وی کیمروں کا ریکارڈ حاصل کرکے اس میں ایک برقعہ پوش خاتون کے ساتھ حریم کو جاتے ہوئے دیکھا، جس کے بعد شک کی بنیاد پر مقتولہ کی پڑوسن رابعہ کو گرفتار کیا گیا تھا۔

حریم فاطمہ کے دادا فرہاد حسین نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’پولیس تحقیقات کرنے میں مکمل ناکام ہوگئی ہے، اسی لیے اعلیٰ افسران اور ان کے ماتحت ملزمہ کی گرفتاری کے دن سے ان پر دباؤ ڈال رہے ہیں کہ وہ دعویداری اسی ایک ملزمہ پر کریں تاکہ کیس کو جلدازجلد نمٹایا جا سکے۔‘

انہوں نے مزید کہا: ’ہم یہ سمجھتے ہیں کہ قتل میں کوئی مرد بھی ملوث ہے، کیونکہ میری پوتی کے ساتھ جنسی زیادتی ہوئی ہے۔ پولیس نے ابھی تک ملزمہ کے اہل خانہ یا دیگر رشتہ داروں سے تفتیش تک نہیں کی اور اب معاملہ ختم کرنے کے لیے ایک نیا بیان دے دیا ہے، جس کے مطابق کہا جارہا ہے کہ ملزمہ کے ساتھ میرے بیٹے یعنی حریم کے والد نے تعلقات جوڑنے کی کوشش کی تھی، لہذا انتقام کے طور پر ملزمہ نے حریم کا قتل کیا۔‘

فرہاد حسین نے مزید تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ ’ملزمہ نے پولیس کو بیان دیا ہے کہ حریم فاطمہ کے والد، جو روزگار کے سلسلے میں اسلام آباد میں مقیم ہیں، ملزمہ کے ساتھ تعلقات قائم کرنے کے لیے فون کالز کیا کرتے تھے۔‘

انہوں نے بتایا: ’میں نے اپنے بیٹے کا موبائل فون چیک کیا۔ یہ موبائل میری بہو بھی استعمال کرتی رہی ہے۔ میری بہو نے بتایا ہے کہ خود اس نے کئی بار شوہر کے موبائل سے رابعہ کے ساتھ رابطہ کیا ہے۔ دراصل رابعہ اور ہمارے گھر کے درمیان ایک دیوار کی دوری ہے اور ان کا روز ہمارے گھر آنا جانا تھا۔‘

فرہاد حسین کا کہنا تھا: ’اگر ملزمہ نے انتقام کے طور پر ان کی پوتی کو قتل کیا ہے تو کیا وجہ تھی کہ وہ واردات کے دن تک ان کے ساتھ ایک اچھی پڑوسن کی طرح تعلقات نبھاتی رہیں۔ اگر خاتون کو کوئی شکوہ تھا تو پہلے بتا دیتیں۔‘

دوسری جانب متعلقہ تھانہ محمد ریاض شہید کوہاٹ کے ایس ایچ او محمد افضل نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’فرہاد حسین غلط بیانی کر رہے ہیں کہ پولیس ان پر ملزمہ رابعہ پر دعویداری کے لیے دباؤ ڈال رہی ہے۔‘ ساتھ ہی انہوں نے بتایا: ’ملزمہ سے مکمل پوچھ گچھ کرلی گئی ہے اور انہوں نے اقبال جرم میں صاف طور پر کہا ہے کہ ان کے ساتھ شریک جرم کوئی نہیں جبکہ قتل کی وجہ یہ تھی کہ ان کے مقتولہ بچی کے چچا کے ساتھ تعلقات تھے اور اسلام آباد میں مقیم بچی کے والد بھی انہیں فون کالز کرکے سبز باغ دکھاتے اور تنگ کرتے رہے۔‘

ایس ایچ او افضل کے مطابق 32 سالہ رابعہ طلاق یافتہ زندگی گزار رہی تھیں اور ان کی کوئی اولاد نہیں تھی۔

 

جب ان سے پوچھا گیا کہ اگر قتل میں کوئی دوسرا شخص ملوث نہیں تو میڈیکل رپورٹ میں واضح الفاظ میں جنسی حملے کا ذکر اور خاکوں کے ذریعے زخموں کی نشاندہی کیوں کی گئی تھی؟ تو انہوں نے بتایا کہ ’ابتدائی طور پر میڈیکل رپورٹ میں ڈاکٹر سے غلطی ہوئی تھی، جسے بعد میں درست کر لیا گیا۔‘

دوسری جانب مقتولہ کے دادا فرہاد حسین نے پولیس کے اس بیان پر کہا کہ وہ یہ ماننے کے لیے تیار نہیں ہیں کہ بچی کے ساتھ جنسی زیادتی نہیں ہوئی ہے۔ انہوں نے کہا: ’پہلی میڈیکل رپورٹ ہی ٹھیک تھی، جس کو پولیس اپنی ناکامی کی وجہ سے غلط قرار دے رہی ہے۔‘

انہوں نے مزید کہا: ’اگر ان کے بیٹے قصوروار ہیں تو پولیس انہیں بھی گرفتار کرکے لے جائے لیکن وہ پھر بھی اصل مجرمان کو پکڑنے کا مطالبہ کریں گے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ساتھ ہی ان کا کہنا تھا: ’نامزد خاتون صرف سہولت کار ہیں، اصل مجرم کوئی اور ہے۔ اگر میرے بیٹوں نے ان خاتون کو کوئی غلط آفر کی ہو تو بے شک انہیں بھی گرفتار کر لیا جائے۔‘

واضح رہے کہ ملزمہ کی چال اور جسامت سے اندازہ لگاتے ہوئے سوشل میڈیا پر کئی صارفین نے انہیں ایک مرد سے تشبیہ دی تھی، تاہم مقتولہ کے دادا نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ان کی پڑوسن ملزمہ یہی چال اور جسامت رکھتی ہیں۔

فرہاد حسین کے مطابق ملزمہ اور ان کے اہل خانہ کے درمیان عرصہ دراز سے اچھے تعلقات رہے ہیں اور کبھی کوئی ایسا معاملہ یا جھگڑا پیش نہیں آیا جس کی بنیاد پر ان پر شک کیا جاتا۔

انہوں نے بتایا تھا کہ بچی کے لاپتہ ہونے سے ان کے وفات کی خبر تک وہ ان کے گھر چکر لگاتی رہیں اور اس مشکل گھڑی میں ان کا ساتھ دیتی رہیں۔

حریم فاطمہ کے قتل کے 12 گھنٹے بعد میڈیکل رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ بچی کا گلا گھونٹ کر قتل کیا گیا اور یہ کہ بچی کے ساتھ جنسی زیادتی بھی ہوئی ہے۔  میڈیکل رپورٹ کے پہلے صفحے پر جنسی حملے کا ذکر ہے جب کہ صفحہ تین پر جنسی زیادتی کا ذکر ہوا ہے۔

فرہاد حسین نے انڈپینڈنٹ اردو کو مزید بتایا کہ گذشتہ روز احتجاج کے بعد پولیس نے ان سے مزید 24 گھنٹے کی مہلت مانگی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’اگر پولیس پھر بھی ناکام ہوئی تو وہ یہ کبھی تسلیم نہیں کریں گے کہ ان کی پوتی کے ساتھ جنسی زیادتی نہیں ہوئی اور اس جرم میں دیگر افراد ملوث نہیں۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان