افواج پاکستان کا تمسخر اڑانے پر سزا و جرمانے کے بل کی منظوری

قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ نے مسلح افواج اور ان کے اہلکاروں پر تنقید کرنے والوں کے خلاف دو سال قید اور پانچ لاکھ روپے تک جرمانے کی مجوزہ سزاؤں کے قانون کے بل منظوری دے دی ہے، جس کی خلاف ورزی کرنے والے کے خلاف سول عدالت میں کیس چلے گا۔

یوم پاکستان کے حوالے سے 25 مارچ 2021 کو  منعقدہ  تقریب میں  پاکستان کے مسلح افواج کے سربراہان سٹیج  پر براجمان ہیں۔ (فائل تصویر: اے ایف پی)

قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ میں مسلح افواج اور ان کے اہلکاروں پر تنقید کرنے والوں کے خلاف دو سال قید اور پانچ لاکھ روپے تک جرمانے کی مجوزہ سزاؤں کے قانون کے بل منظوری دے دی گئی ہے جس کی خلاف ورزی کرنے والےکے خلاف سول عدالت میں کیس چلے گا۔

راجا خرم شہزاد نواز کی زیرصدارت بدھ کو قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ کے اجلاس میں رکن قومی اسمبلی امجد علی خان کی طرف سے کرمنل لا ترمیمی بل زیرغور آیا۔

امجد علی خان نے کمیٹی اجلاس میں کہا کہ ’ریاست اپنے قوانین پر خود عملدرآمد کرواتی ہے اور مجوزہ بل کے مطابق افواجِ پاکستان کا تمسخر اڑانے پر سول عدالت میں کیس چلے گا۔‘

انہوں نے کرمنل لا ترمیمی بل کی تفصیل بتاتے ہوئے کہا کہ ’قانون میں 500 اے کی شمولیت کسی دوسرے قانون سے متصادم نہیں ہے جبکہ خیبرپختونخوا حکومت نے مجوزہ قانون پر کسی دلیل کے بغیر اعتراض کیا ہے۔‘

تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والے رکن اسمبلی امجد علی خان نے مزید کہا کہ ’ملک میں ففتھ جنریشن وار ہو رہی ہے جبکہ سابق فاٹا میں سرحد پار سے فوج اور اداروں کے خلاف بات ہوتی ہے۔‘

بل پر اعتراضات

اجلاس کے دوران پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے کمیٹی کے رکن آغا رفیع اللہ نے اعتراض کیا کہ یہ قانون سیاسی انتقام کے لیے استعمال ہوگا۔

ان کا کہنا تھا: ’اداروں پر نیک نیتی سے کی گئی تنقید بھی اس قانون کے دائرے میں آئے گی۔ اس طرح تو آپ آزادی رائے پر قدغن لگا رہے ہیں۔‘

ساتھ ہی انہوں نے سوال اٹھایا: ’ہم کیوں مقدس گائے بنا رہے ہیں؟‘

آغا رفیع اللہ نے مزید کہا: ’آپ پارلیمنٹ اور ہمارے اداروں سے زیادتی کر رہے ہیں۔ پاکستان کے 22 کروڑ عوام میں سے دو فیصد لوگ بھی اداروں کے خلاف نہیں ہیں بلکہ ہم اپنے اداروں کے ساتھ سیسہ پلائی دیوار کی طرح کھڑے ہیں۔‘

دوسری جانب کمیٹی کی رکن اور مسلم لیگ ن کی رہنما مریم اورنگزیب نے کہا کہ ’اس بات کا موازنہ ہونا چاہیے کہ آئین وقانون میں مسلح افواج کو تحفظ دینے والے قوانین کون سے ہیں۔ اگر آئین وقانون میں پہلے سے قوانین موجود ہیں تو یہ قانون اداروں کے ساتھ بھی زیادتی ہوگی۔‘

انہوں نے سوال اٹھایا کہ ’کیا یہ قانون بیرون ممالک بیٹھے لوگوں پر لاگو نہیں ہو گا؟ ممبرز اس نقطے پر کنفیوز ہیں۔‘

انہوں نے مزید سوالات اٹھاتے ہوئے کہا کہ ’اس قانون کو متعارف کروایا ہی کیوں جا رہا ہے؟پاکستان کے شہری کیوں پاکستانی اداروں کو جان بوجھ کر اشتعال دلائیں گے؟‘

بقول مریم اورنگزیب: ’اس بل میں ادارے کو بھی متنازعہ بنایا جا رہا ہے۔ اس قانون کو متعارف کروانے کا مقصد یہ بتانا ہےکہ اداروں کو اشتعال دلایا جارہا ہے۔ ہتک عزت کا قانون موجود ہے جبکہ آزادی اظہار کا قانون بھی موجود ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے مزید کہا کہ ’اس مجوزہ قانون میں ایسی نیت دکھائی جارہی ہے جو خود اداروں کے لیے ٹھیک نہیں۔ اگر سارے صوبے جواب نہیں دینا چاہ رہے تو کمیٹی کیوں یہ قانون منظور کرنا چاہ رہی ہے۔‘

مریم اورنگزیب نے مزید کہا کہ ’یہ پرائیویٹ ممبر بل ہے، پرائیویٹ ممبر کو چاہیے کہ وہ آرٹیکل 19 پڑھ لیں۔‘

بل پیش کرنے والے رکن امجد علی خان نے ان اعتراضات پر واضح کیا کہ یہ قانون کسی کے خلاف نہیں لایا جارہا۔ انہوں نے کہا: ’مجھ سے زیادہ ملک و فوج کا کوئی وفادار نہیں ہے۔ اس پر اتفاق رائے ہونا چاہیے، ہم اپنے ہی اداروں کو خود متنازع بنارہے ہیں۔‘

انہوں نے مزید کہا: ’میں اس پر احتجاج کرتا ہوں کہ میرے بارے میں کہا گیا کہ ذاتی تشہیر کے لیے قانون تجویز کیا ہے۔ ایسا نہیں ہے بلکہ فوج کے ان مسائل کے حل کے لیے ہمیں کچھ کرنا چاہیے۔‘

جس پر مسلم لیگ کے رکن اسمبلی پرویز ملک نے رائے دیتے ہوئے کہا کہ ’ہم اس قانون کی مخالفت نہیں کرتے لیکن اس کو شفاف بنانا چاہتے ہیں۔‘

اجلاس کے دوران وزارت قانون کے حکام نے بل پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ’آرٹیکل 19 آزادی اظہار سے متعلق ہے مگر اسے قانون کے ذریعے ریگولیٹ کیا جاسکتا ہے۔‘

ان کا مزید کہنا تھا: ’سیکشن 500 میں ہتک عزت کی کارروائی ہے۔ اس مجوزہ قانون کے متوازی غداری کا کیس ہے جو وفاقی اورصوبائی حکومت کرتی ہے۔‘

جس پر وزارت داخلہ کی جانب سے موجود سرکاری حکام نے کہا کہ وزارت داخلہ اس مجوزہ قانون کی توثیق کرتی ہے۔

تمام بحث سننے کے بعد چیئرمین داخلہ کمیٹی راجا خرم نواز نے بل پر ووٹنگ کروائی۔ اجلاس میں موجود 10 میں سے چار ارکان نے بل کی مخالفت کی جبکہ چیئرمین کمیٹی نے حکومت کی حمایت کردی، جس کے بعد کمیٹی میں بل منظور کرلیا گیا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان