خیبر پختونخوا کے بعض اضلاع میں کرونا کی شرح صفر کیسے؟

خیبر پختونخوا میں سب سے زیادہ اموات پشاور میں ریکارڈ ہوئی ہیں جن کی تعداد 1361 ہے جب کہ دوسرے نمبر پر ایبٹ آباد ہے جہاں پر 166 اموات واقع ہوئی ہیں، تیسرے نمبر پر زیادہ اموات سوات میں ہیں جن کی تعداد 158 ہے۔

(اے ایف پی)

خیبر پختونخوا کے ضلع چترال کے جنوبی اضلاع سمیت چترال، دیر بالا، اور ضلع تورغر میں میں مثبت کرونا کیسز کی شرح زیادہ تر اضلاع میں صفر جبکہ بعض میں چار فیصد سے  کم ہے جبکہ سب سے زیادہ شرح پشاور ، نوشہرہ اور مردان میں ریکارڈ ہوئی ہے۔

 اگر صوبے کے دوسرے اضلاع کی آٹھ اپریل کی شرح پر نظر دوڑائیں تو پشاور میں کرونا کیسز کی شرح26  فیصد، نوشہرہ میں 30 فیصد، مردان میں 30 فیصد،مہمند میں 23 فیصد،چارسدہ میں 16 فیصد،باجوڑ میں 19 فیصد ایبٹ آباد میں 17 فیصد ہے۔

 ان اعدادو شمار کا اگر موازنہ کیا جائے تو جنوبی اضلاع سمیت وہ اضلاع جو دور دراز واقع ہیں، ان میں کرونا کیسز کی شرح نہ ہونے کے برابر ہے۔ ان اضلاع میں ٹانک، جنوبی وزیرستان،ڈیرہ اسماعیل خان،لکی مروت،اورکزئی،تورغر،کولائی پالس، کوہستان اپر،بٹگرام،دیر بالا میں کرونا کیسز کی شرح صفر ہے۔

 انڈپینڈنٹ اردو نے یہ جاننے کی کوشش کی ہے کہ اضلاع کے مابین کرونا کیسز کی شرح میں اتنا فرق کیوں ہے۔اعداد وشمار کو اگر سیکھا جائے تو صفر شرح والے دو اضلاع کوہستان بالا اور دیر بالا میں آٹھ اپریل کو صرف ایک کرونا کا ٹیسٹ کیا گیا ہے۔

 اسی طرح لکی مروت میں بھی شرح صفر ہے اور آٹھ اپریل کو وہاں پر 311 کرونا ٹیسٹ کیے گئے۔ دیگر اضلاع کے ٹیسٹ اعدادو شمار الگ الگ ہیں۔ انہی اعداد وشمار سے ایک بات یہ سامنے آتی ہے کہ کم شرح والے اضلاع میں کرونا کے ٹیسٹ بھی کم ہوئے تاہم صوبائی وزیر صحت تیمورسلیم جھگڑا سمجھتے ہیں کہ کم ٹیسٹ کی وجہ سے یہ شرح کم نہیں ہے کیونکہ ٹیسٹ روزانہ کی بنیاد پر کہیں کم تو کہیں زیادہ ہوتے ہیں۔

 تیمور سلیم  جھگڑا نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ان اضلاع میں کرونا کیسز کی شرح اس لیے کم ہے کیونکہ یہ دیہی علاقے ہیں جب کہ کرونا ان اضلاع میں سب سے زیادہ ہے جو شہری علاقے ہیں(کیونکہ وہاں پر لوگوں کی آمدو رفت زیادہ ہوتی ہیں)۔

کم شرح والے اضلاع میں اموات بھی کم ہیں؟

انڈپینڈنٹ اردو نے وہ اضلاع جہاں پر کرونا کی شرح کم ہے وہاں پر اموات کی شرح کے اعدادوشمار کا تجزیہ بھی کیا ہے۔ ان اعدادوشمار میں بھی یہ ٹرینڈ سامنے آیا ہے کہ جن اضلاع میں کیسز کی شرح کم ہے وہاں پر اموات بھی کم ہوئیں ہیں۔ یہ اموات گزشتہ سال کرونا کی شروع ہونے سے اب تک کے ہیں۔

خیبر پختونخوا میں سب سے زیادہ اموات پشاور میں ریکارڈ ہوئی ہیں جن کی تعداد 1361 ہے جب کہ دوسرے نمبر پر ایبٹ آباد ہے جہاں پر 166 اموات واقع ہوئی ہیں، تیسرے نمبر پر زیادہ اموات سوات میں ہیں جن کی تعداد 158 ہے۔

اب اگر کم شرح والے اضلاع کو دیکھا جائے تو جہاں پر شرح اموات صفر یا ایک فیصد ہے، جس میں تورغر، کوہستان بالا، کوہسپتان پائین، کولائی پالس، سمیت ٹانک میں کرونا سے اب تک کسی بھی شخص کی  موت واقع نہیں ہوئی ہے۔

اسی طرح لکی مروت اور شمالی وزیرستان میں بھی مثبت کرونا کیسز کی شرح ایک فیصد سے کم ہے اور وہاں پر اموات بھی اب تک فی علاقہ ایک ایک ہوئی ہیں۔ اس سے یہ اندازہ ہوجاتا ہے کہ کم شرح والے اضلاع میں اموات کی کیسز بھی کم ہے۔

خیبر پختونخوا کی مجموعی صورتحال کے اعدادو شمار کے مطابق اب تک کرونا کے 96 ہزار سے زائد کیسز سامنے آئے ہیں جب کہ مجموعی اموات اب تک 2553 ہوئیں  جب کہ کرونا کیسز میں ریکوریز کی تعداد 81 ہزار 959 ہے اور موجود ہ ایکٹیو کیسز کی تعداد 11 ہزار 616 ہے۔

محکمہ صحت کے ایک اہلکار جو صوبے میں کرونا معاملات سے آگاہ ہیں، نے انڈپینڈنٹ اردو کو نام نہ لکھنے کی شرط پر بتایا کہ  جہاں تک انھوں نے کرونا  معاملے کو دیکھا ہے تو اس میں بنیادی وجہ ایک یہ ضرور ہے کہ یہ اضلاع دور دراز ہیں اور وہاں پر انٹری پوائنٹس شہری علاقے کے مقابلے میں زیادہ نہیں ہوتے جس سے کرونا کا پھیلاؤ کم رہتا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

تاہم اس اہلکار نے بتایا کہ ایک وجہ اس کی یہ بھی ہے کہ جتنے بھی دور کے اضلاع ہیں تو وہاں سے سرکاری کرونا لیبارٹری کو خون کے نمونے دو یا تین دن بعد موصول ہوتے ہیں جس کی وجہ سے ان نمونوں کی نتائج پر زیادہ انحصار نہیں کیا جا سکتا۔

انھوں نے بتایا 'چترال کی مثال لیجیے۔ وہاں وہ مختلف لوگوں کے خون کے نمونے جمع کر کے دو یا تین دن بعد لیب کو ارسال کر دیتے ہیں۔ تو میں سمجھتا ہوں 15 فیصد تک خون کے وہ نمونے ضائع ہو جاتے ہیں مطلب اس کا جو ٹیسٹ کیا جاتا ہے وہ حقیقی طور پر یہ نہیں کہا جا سکتا کہ نتیجہ ٹھیک ہے۔'

اس اہلکار نے ایک تیسری وجہ یہ بھی بتائی کہ صوبے میں کرونا کے مثبت کیسز زیادہ تر اب سرکاری ہسپتالوں سے رپورٹ ہوتے ہیں، مطلب سرکاری لیب کے علاوہ اب سرکاری ہسپتال بھی ٹیسٹ کراتے ہیں جہاں سے بہت زیادہ کیسز سامنے آتے ہیں۔ سرکاری لیب کی اگر بات کی جائے تو صوبے کی سرکاری لیب  کو بھیجے گئے نمونوں میں مجموعی طور پر  مثبت کیسز کی شرح 10 فیصد ہے جب کہ باقی یہ جو شرح سامنے آ رہی ہے یہ سرکاری ہسپتالوں میں کرونا کیسز کی ہے۔

اب چونکہ دور دراز اضلاع میں ہسپتال اتنے ایکٹو نہیں ہیں جہاں پر مریض جا کر ٹیسٹ کرائے اس لیے وہاں کرونا کیسز کی شرح بھی کم آرہی ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان