بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں گذشتہ 72 گھنٹوں کے دوران تشدد کی چھ مختلف وارداتوں میں 12 مشتبہ عسکریت پسندوں اور ایک فوجی سمیت 14 کشمیری ہلاک ہوئے ہیں۔
ہلاک ہونے والوں میں میں جنوبی ضلع شوپیاں کے چھتراگام کلان کا رہنے والا 14 سالہ فیصل گلزار گنائی بھی شامل ہے۔ فیصل گلزار چار بہنوں کا اکلوتا بھائی تھا اور زینہ پورہ شوپیاں میں قائم ایک نجی سکول میں دسویں جماعت کا طالب علم تھا۔
بھارت کے زیر انتظام کشمیر کی پولیس کے مطابق اتوار کو سکیورٹی فورسز نے جنوبی کشمیر کے شوپیاں اور اننت ناگ اضلاع میں دو جگہوں پر مبینہ عسکریت پسندوں کے خلاف کارروائی کی جس کے دوران پانچ مقامی افراد مارے گئے ہیں۔
ضلع شوپیاں کے چھتراگام کلان کے میوہ باغات کے آپریشن میں کمسن فیصل گلزار گنائی سمیت تین افراد مارے گئے ہیں۔
پولیس کے انسپکٹر جنرل وجے کمار نے اپنے ایک ٹویٹ میں دعویٰ کیا کہ پولیس اور سکیورٹی فورسز نے فیصل گلزار کی خود سپردگی حاصل کرنے کی کوششیں کیں لیکن محاصرے میں پھنسے دیگر عسکریت پسندوں نے اسے ایسا کرنے کی اجازت نہیں دی۔
ان کا ٹویٹ میں کہنا تھا: 'پولیس اور سکیورٹی فورسز نے نئے بھرتی شدہ عسکریت پسند کی خود سپردگی حاصل کرنے کی مخلصانہ کوششیں کیں۔ والدین نے بھی اپیلیں کیں لیکن دوسرے دہشت گردوں نے اسے خود سپردگی اختیار کرنے کی اجازت نہیں دی۔'
#ShopianEncounterUpdate:
— Kashmir Zone Police (@KashmirPolice) April 11, 2021
Police & security forces made sincere efforts to take surrender of newly recruited #terrorist. Parents also made appeals but other terrorists didn’t allowed him to #surrender. IGP Kashmir. https://t.co/sxn3JBlkwo
پولیس کی طرف سے جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ فیصل گلزار کو خود سپردگی اختیار کرنے پر آمادہ کرنے کے لیے اس کے والدین کو بھی جائے وقوع پر لایا گیا تھا۔
'تاہم والدین کی بارہا اپیلوں اور سکیورٹی فورسز کی یقین دہانی کے باوجود دوسرے دہشت گردوں نے اسے خود سپردگی اختیار کرنے کی اجازت نہیں دی۔ بالآخر ہمیں ان سب کو ہلاک کرنا پڑا۔'
انسپکٹر جنرل وجے کمار نے اپنے ایک ٹویٹ میں دعویٰ کیا کہ ضلع اننت ناگ کے بجبہاڑہ میں چلائے جانے والے آپریشن کے دوران جن دو عسکریت پسندوں کو ہلاک کیا گیا ہے وہ اسی علاقے سے تعلق رکھنے والے فوجی اہلکار کی ہلاکت میں ملوث تھے۔
ان کا اس ٹوئٹ میں کہنا تھا: 'آرمی جوان کی ہلاکت میں ملوث دہشت گردوں کو محض دو دنوں کے اندر بجبہاڑہ جھڑپ میں مارا گیا ہے۔'
بجبہاڑہ میں جمعے کو نامعلوم بندوق برداروں نے ٹیریٹوریل آرمی کے ایک مقامی اہلکار محمد سلیم آخون کو گولیاں مار کر ہلاک کر دیا تھا۔ یہ فوجی چھٹی لے کر اپنے گھر آیا ہوا تھا۔
اتوار کو وسطی ضلع بڈگام کے بچھی پورہ ماگام میں نامعلوم بندوق برداروں نے نثار احمد خان نامی ایک کشمیری شہری کو پے در پے پانچ تا آٹھ گولیاں مار کر قتل کر دیا۔
کشمیر کی پولیس نے نثار احمد کی ہلاکت کے لیے عسکریت پسندوں کو ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔ اس شہری کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ وہ مبینہ طور پر ماضی میں پولیس کے سپیشل آپریشنز گروپ کا رکن تھا۔
دو روز قبل یعنی جمعے کو شوپیاں اور پلوامہ اضلاع میں سکیورٹی فورسز نے دو الگ الگ آپریشنز میں عسکری تنظیم انصار غزوۃ الہند کے چیف کمانڈر امتیاز احمد شاہ سمیت سات مقامی عسکریت پسندوں کو ہلاک کیا۔
کشمیر کی خبر رساں ایجنسی گلوبل نیوز سروس یا جی این ایس نے پولیس سربراہ دلباغ سنگھ کے حوالے سے رپورٹ کیا ہے کہ جن 12 عسکریت پسندوں کو گذشتہ 72 گھنٹوں کے دوران ہلاک کیا گیا ہے وہ انصار غزوۃ الہند، البدر اور لشکر طیبہ سے وابستہ تھے۔
پولیس سربراہ نے کہا ہے: ’عسکریت پسندوں میں سے سات انصار غزوۃ الہند، تین البدر اور باقی دو لشکر طیبہ سے وابستہ تھے۔ انصار غزوۃ الہند کے سات جنگجوؤں کی ہلاکت کے ساتھ اس تنظیم کا ترال اور شوپیاں میں صفایا کیا گیا ہے۔'
تاہم آذاد ذرائع سے ان سرکاری دعوؤں کی تصدیق نہیں ہوسکی ہے۔
سرکاری ذرائع نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ گذشتہ 72 گھنٹوں کے دوران چار کامیاب آپریشنز میں 12 عسکریت پسندوں کو ہلاک کیا گیا ہے۔
'ان آپریشنز کے دوران سکیورٹی فورسز کا کوئی جانی نقصان نہیں ہوا ہے۔ البتہ ایک افسر سمیت چار فوجیوں کو معمولی نوعیت کی چوٹیں آئی ہیں۔ اس کے علاوہ آپریشنز کے مقامات پر سکیورٹی فورسز پر پتھراؤ کرنے والے چند مقامی نوجوان زخمی ہوئے ہیں۔'
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
مقامی عسکریت پسندوں کی میتیں گذشتہ ایک سال سے ان کے آبائی قبرستانوں کی بجائے شمالی کشمیر کے ضلع بارہمولہ یا وسطی کشمیر کے گاندربل میں واقع غیر ملکی یا عدم شناخت افراد کے لیے مخصوص قبرستانوں میں دفنائی جا رہی ہیں۔
کشمیر کی پولیس کا کہنا ہے کہ ایسا اس لیے کیا جا رہا ہے تاکہ کرونا (کورونا) وائرس کو پھیلنے سے روکنے کی احتیاطی تدابیر پر عمل درآمد کو یقینی بنایا جا سکے۔
تاہم انسانی حقوق کے کارکنوں کے مطابق ایسا کرنا بھارتی و بین الاقوامی قوانین کی صریحاً خلاف ورزی ہے اور میتیں لواحقین کو نہ دینے کے پیچھے یہ مقصد کارفرما ہے کہ لوگ جمع ہوں اور نہ احتجاج ہو۔
'جو ہتھیار اٹھائے گا مارا جائے گا'
سری نگر میں قائم بھارتی فوج کی پندرہویں کور کے جنرل آفیسر کمانڈنگ یا جی او سی لیفٹیننٹ جنرل ڈی پی پانڈے نے کہا ہے کہ کشمیر میں جو بھی بھارت کے خلاف ہتھیار اٹھائے گا مارا جائے گا۔
گذشتہ روز ایک پریس کانفرنس کے دوران بھارتی فوجی افسر کا کہنا تھا: 'آپریشنز اسی رفتار سے جاری رہیں گے جس رفتار سے جاری ہیں۔ جو بھی ہتھیار اٹھائے گا اس کو ہم نے ہلاک کرنا ہے۔'
لیفٹیننٹ جنرل ڈی پی پانڈے نے کہا کہ جنوبی اور وسطی کشمیر کے کچھ حصوں میں تشدد کی لہر اب بھی جاری ہے جس پر قابو پانے کی کوششیں جاری ہیں۔
’ہماری تمام تر کوششیں ریکروٹمنٹ کو روکنے کے لیے ہوں گی۔‘
جھڑپوں کی کوریج پر پابندی
رواں ماہ کی 2 تاریخ کو جنوبی ضلع پلوامہ میں ایک جھڑپ کے مقام سے دور بھگانے کے دوران ویڈیو اور فوٹو جرنلسٹس کے ساتھ کشمیر کی پولیس کے اہلکاروں نے بدتمیزی کی اور ان میں سے قیصر میر نامی ملٹی میڈیا جرنلسٹ کو لات ماری۔
One pointed a pellet gun and another kicked a local photographer @QisarMir
— Syed Shahriyar (@shahriyarsyed1) April 2, 2021
after chasing us away while covering clashes near the gunfight site in Pulwama today. Everyday story of a journalist in #Kashmir.@CPJAsia @RSF_inter
#JournalismIsNotACrime
Video:Syed shahriyar pic.twitter.com/nt1w84GuZX
پولیس کے عہدیداروں نے اس واقعے کا سخت نوٹس لینے یا معافی مانگنے کی بجائے جھڑپوں کی کوریج پر پابندی لگائی ہے۔
پولیس کے انسپکٹر جنرل وجے کمار نے ایک پریس کانفرنس کے دوران اپنے فیصلے کو صحیح قرار دیتے ہوئے صحافیوں سے پولیس کی 'بونافائڈ ڈیوٹی' میں مداخلت نہ کرنے کو کہا ہے۔
انہوں نے کہا: 'میں نے اپنے ضلعی پولیس سربراہان یا ایس پیز کو تحریری حکم نامے روانہ کر دیے ہیں۔ سپریم کورٹ کا ایک فیصلہ ہے کہ لائیو جھڑپ کی لائیو کوریج کی اجازت نہ دی جائے۔
'جھڑپوں کی کوریج کی اجازت نہ دینے کی کئی وجوہات ہیں۔ پہلی وجہ یہ ہے کہ عسکریت پسند یا سکیورٹی اہلکار کی بندوق سے نکلنے والی گولی آپ کو بھی لگ سکتی ہے۔
'دوسری وجہ یہ ہے کہ آپ فوٹو کھینچتے ہیں تو ہمارے اہلکار ڈسٹرب ہو جاتے ہیں۔ اس دوران انہیں عسکریت پسندوں کی گولیاں بھی لگ سکتی ہیں۔
'تیسری وجہ یہ ہے کہ جھڑپ کی لائیو کوریج سے کہیں اور لا اینڈ آرڈر خراب ہو سکتا ہے۔ یہ کوریج اشتعال دلانے کا کام کر سکتی ہے۔
'چوتھی وجہ یہ ہے کہ اس سے اندرونی سکیورٹی پر اثر پڑتا ہے۔ لہٰذا آپ ہماری بونافائڈ ڈیوٹی میں مداخلت نہ کریں۔'
وجے کمار نے کہا کہ تمام اضلاع کے پولیس سربراہان سے کہا گیا ہے کہ میڈیا کو مسلح جھڑپوں کی لائیو کوریج کی اجازت نہ دی جائے۔
'ہم نے قانونی اعتبار سے صحیح فیصلہ لیا ہے۔ آپ جھڑپ کی جگہ کے نزدیک نہیں جائیں گے۔
'آپ لوگ شکایت کرتے ہیں پولیس والے ہمیں پیٹتے ہیں، آپ ویڈیو بھی ریلیز کرتے ہیں۔ آپ کیوں جاتے ہیں مسلح جھڑپ کی جگہ پر؟ آپ انتظار کیا کریں، بعد میں ضلع ایس پیز آپ کو بریف کیا کریں گے۔'