پاکستان میں مہنگائی کا خاتمہ کیسے ممکن ہے؟

عالمی بینک کے مطابق پاکستان میں مہنگائی کا تناسب 10.6 فیصد ہے جبکہ دنیا میں اس کی اوسط شرح چار فیصد سے بھی کم ہے۔

کراچی کے ایک مارکیٹ میں ایک خاتون چاول کی افسام دیکھ رہی ہیں (اے ایف پی فائل)

آپ سبزی کی دکان پر جائیں اور زیادہ دام پر سوال اٹھائیں تو دکاندار کے پاس ایک ہی جواب ہوتا ہے کہ یہ سب ’تبدیلی‘ کے کرشمے ہیں۔ حالانکہ جس روز میں نے شلجم کے ریٹ پوچھے تھے اس روز اسلام آباد سے صرف سو کلومیٹر دور میرے گاؤں میں وہ 10 روپے کلو تھے۔

اسی روز میں نے اسلام آباد کی سبزی منڈی میں 20 روپے میں بکتے دیکھے اور جب میں اپنے محلے میں آیا تو یہاں وہی ریٹ 60 روپے کلو تھا اور دکاندار اس کا قصور وار بھی عمران خان کو قرار دے رہا تھا۔

مسئلہ پوچھیں تو ایک ہی جواب ہے کہ مال نہیں آرہا۔ پاکستان میں کوئی ایک بھی چیز ایسی نہیں جس کے ریٹ میں گذشتہ ایک سال کے دوران کم از کم دو گنا اضافہ نہیں ہوا۔

ایسا ہو سکتا ہے کہ درآمد شدہ مال کی ترسیل میں مشکلات ہوں لیکن مارکیٹ جائیں تو پتہ چلتا ہے کہ سوئی سے گاڑی تک تو ہر چیز باہر سے آ رہی ہے۔

22 کروڑ لوگوں  کی مارکیٹ میں ’میڈ ان پاکستان‘کچھ بھی نہیں اور  جو ہے اس کی قیمتیں بھی ا س لیے زیادہ مانگی جاتی ہیں کہ خام مال نہیں  مل رہا۔

چینی بحران میں خود حکومت یہ اعتراف کر رہی ہے کہ مافیا نے ا س دوران صارفین کی جیبوں پر 600 ارب روپے کا ڈاکہ ڈالا ہے۔

سوچیں جنہوں نے پہلے روزے میں فروٹ اور آلو پیاز کی قیمتیں دو سے تین گنا بڑھا دی ہیں انہوں نے 22 کروڑ لوگوں کی مارکیٹ میں صرف ایک دن میں کتنے کا ڈاکہ ڈالا ہے۔

شاید یہ بھی کئی سو ارب روپے ہوں۔ ہم سب جانتے ہیں کہ مہنگائی کیوں ہوتی ہے؟ ذخیرہ اندوز کیسے کام کرتے ہیں؟ وہ انتظامیہ کے ساتھ ملی بھگت کیسے کرتے ہیں؟ لیکن یہ نہیں سوچتے کہ اس مسئلے کا حل کیا ہے؟

اس کا حل بڑا آسان ہے اور پاکستان کو بھی اسی طرح کرنا چاہیے جس طرح جدید دنیا نے کیا ہے۔ دنیا نے مارکیٹ کھلی چھوڑ کر اس میں مسابقت کا رجحان پیدا کیا ہے جو پاکستان میں بالکل نہیں ہے۔

پاکستان میں مہنگائی کی سب سے بڑی وجہ آڑھت ہے یعنی مال صارف تک پہنچتے پہنچتے کئی ہاتھوں سے گزرتا ہے۔ جو سبزی کسان سے پانچ روپے کلو خریدی جاتی ہے وہ منڈی سے ہوتی ہوئی محلے کی دکان تک آتے آتے 10 گنا مہنگی ہو چکی ہوتی ہے۔

بجلی کا جو بلب 50 روپے کا درآمد کیا جاتا ہے وہ صارف کو 150 روپے میں ملتا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ درمیان سے آڑھت کو نکال دیں تو صارف کو سستی چیزیں مل سکتی ہیں۔

اس مقصد کے لیے پاکستان کو یا تو اپنی بڑی بڑی سپر مارکیٹ  چینز بنانی ہوں گی  یا پھر وال مارٹ، ایسڈا، ٹیسکو اور آلڈی کی طرح کے انٹرنیشنل سپر سٹورز کے لیے مارکیٹ کھولنی چاہیے۔

یہ سپر سٹورز کیسے کام کرتے ہیں؟ یہ اشیائے خوردونوش بہت بڑی تعداد میں خریدتے ہیں اور عموماً براہِ راست کسان سے یا فیکٹری سے مال اٹھاتے ہیں، جس کی وجہ سے انہیں وہ چیزیں آڑھتیوں سے بھی سستی ملتی ہیں۔

پھر اگر ایک ہی شہر میں پانچ دس بڑے سپر سٹورز کی چینز موجود ہوتی ہیں تو ان میں مقابلے کی فضا ہوتی ہے اور ہر کوئی صارف کو سستی سے سستی اشیا فراہم کرنے کی کوشش کرتا ہے جس کی وجہ سے مہنگائی خود بخود کنٹرول رہتی ہے۔

اسی طرح جو اشیا صرف درآمد ہوتی ہیں وہ بھی یہ سپر سٹور خود کرتے ہیں اس لیے درمیان والا ہاتھ نکل جاتا ہے جس کی وجہ سے صارف کو انتہائی سستی اشیا میسر آتی ہیں۔ اس کا ایک فائدہ لوکل مینوفکچررز کو بھی ہوتا ہے کیونکہ چیزیں بنانے سے کہیں زیادہ مشکلات انہیں مارکیٹ کرنے میں آتی ہیں۔

لیکن ایسی صورت میں جب پورے ملک میں ایک ہی سپر سٹور آپ کی فیکٹری کا مال اٹھا لیتا ہے تو مینوفکچرنگ بھی کئی گنا بڑھ جاتی ہے اور جو چیزیں ہم اس وقت درآمد کر رہے ہیں ان کی لوکل پروڈکشن شروع ہو جائے گی۔

اس وقت کئی اشیا پر17 فیصد تک جی ایس ٹی نافذ ہے۔ صارف کی جیب سے یہ پیسے وصول کر لیے جاتے ہیں مگر سرکاری خزانے تک اس 17 فیصد میں سے چار فیصد ہی پہنچتا ہے، باقی انڈر انوائسنگ اور مانیٹرنگ نہ ہونے کہ وجہ سے چوری ہو جاتا ہے  کیونکہ پاکستان میں لاکھوں کریانہ سٹورز ہیں جنہیں فیکٹری والے روزانہ کی بنیاد پر مال سپلائی کرتے ہیں اور ان سے کیش کی صورت وصولی کرتے ہیں۔

حکومت کے لئے یہ اندازہ لگانا بڑا مشکل ہوتا ہے کہ کس برانڈ کا  مال  حقیقت میں کتنا فروخت ہوا۔ صرف ایک ایٹم یعنی سیگریٹ کی ہی مثال لی جائے تو بڑے شہروں میں روزانہ کی مد میں جو ٹیکس چوری ہے وہ دس سے 50 کروڑ روپے روزانہ کا ہے۔

باقی اشیا کا اندازہ خود لگا لیں۔ جب بڑے سپر سٹورز کی چین آپریٹ کر رہی ہوں گی تو انہیں مانیٹر کرنا آسان ہو گا کیونکہ ان کے تمام کھاتے الیکٹرونک ہوتے ہیں۔

مغربی ممالک میں کوئی صارف اگر کسی چیز کے معیار سے مطمئن نہ ہو تو وہ 15 دنوں سے ایک مہینے کے اندر انہیں واپس یا تبدیل کروا سکتا ہے جبکہ پاکستان میں ایسی کوئی سہولت میسر نہیں ہے۔

اس طرح اگر ایسے سپر سٹورز کو لائسنس دییے جائیں تو مہنگائی کا خود بخود خاتمہ بھی ہو جائے گا اور جی ایس ٹی کی مد میں اربوں روپے کی چوری بھی رک جائے گی۔

 آج کل پاکستان میں گاڑیوں کی قیمتیں آسمان سے باتیں کررہی ہیں۔ مارکیٹ میں نئی گاڑی لینے جائیں تو تین سے چھ ماہ تک ویٹنگ ٹائم ہے۔ اگر فوری چاہیے تو دو سے 10 لاکھ تک اوون منی چل رہی ہے۔

مارکیٹ میں پہلے پرانی گاڑیاں درآمد کرنے کی آزادی تھی جس کی وجہ سے لوگوں کو معیاری اور نسبتاً سستی گاڑیاں مل رہی تھیں مگر اب حکومت نے بڑے کار مینوفکچررز کے دباؤ میں پالیسی تبدیل کر دی ہے جس کی وجہ سے مارکیٹ میں گاڑیوں کی قلت ہو گئی ہے۔

سوچنے کی بات یہ ہے کہ حکومت کو تو ایک جیسا ہی ٹیکس ملتا ہے اور جو لوکل مینوفکچرر ہیں وہ بھی جاپانی برانڈ  ہیں۔

آخر میں وہ پیسہ بھی ملک سے  باہر ہی جاتا ہے۔ پھر پاکستان میں غیر ملکی گاڑیوں کی درآمد پر پابندی لگا کر کس ملکی برانڈ کی حوصلہ افزائی کرنا مقصود ہے کیونکہ پاکستان تو کوئی گاڑی بناتا ہی نہیں ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

جو پلاٹ آٹھ ماہ پہلے چار کروڑ کا تھا وہ اب آٹھ کروڑ کا ہو گیا ہے کیونکہ حکومت نے سکیم دی ہوئی ہے کہ پراپرٹی میں سرمایہ کاری  کرکے لوگ اپنا کالا دھن سفید کر سکتے ہیں۔

سوچنے کی بات ہے کہ حکومت یہ سکیم انڈسٹری کو بھی دے سکتی ہے تاکہ ملک میں مینوفیکچرنگ میں اضافہ ہو جس سے بیروزگاری کا خاتمہ ہو اور ہمارا درآمدی بل کم ہو اور بر آمدات بھی  بڑھیں مگر حکومت ہر بار کالا دھن سفید کرنے کی جو سکیم پراپرٹی کے لیے لانچ کرتی ہے اس سے پراپرٹی کی قیمتیں غیر معمولی طور پر بڑھ جاتی ہیں جس کی وجہ سے دکانوں کی کرائے بھی بڑھتے ہیں جو مہنگائی کی وجہ بنتے ہیں۔

2019 کے اعدداد و شمار کے مطابق پاکستان کی کل مینوفیکچرنگ 34 ارب ڈالر جبکہ اس کے مقابلے میں بنگلہ دیش کی 48، بھارت کی 412، انڈونیشیا کی 207، ترکی کی 147، جنوبی کوریا کی 459، جرمنی کی 806 اور برطانیہ کی 253 ارب ڈالر  تھیں۔ سب سے زیادہ مینوفیکچرنگ چین کی تھی یعنی چار کھرب ڈالر اور دوسرے نمبر پر امریکہ کی 2.3 کھرب ڈالر۔

عالمی بینک کے  مطابق پاکستان میں مہنگائی کا تناسب 10.6فیصد ہے۔ دنیا میں اس کی اوسط شرح چار فیصد سے بھی کم ہے۔ ہمارے ساتھ افغانستان میں 2.3، بھارت میں سات، بنگلہ دیش میں 5.6، چین میں 2.9، امریکہ میں 1.8، برطانیہ میں 1.7، انڈونیشیا میں تین ، جنوبی کوریا میں 0.3  اور متحدہ عرب امارات میں منفی 1.9  فیصد یعنی قیمتیں بڑھنے کی بجائے کم ہوئیں۔

ان اعدادو شمار کا واضح مطلب ہے کہ جب تک مینو فیکچرنگ نہیں بڑھے گی اور مارکیٹ میں مسابقت کا رجحان پیدا نہیں ہو گا مہنگائی کم نہیں ہو گی۔

کیا پاکستان مہنگائی کا حل اس طرح نکالنا چاہتا ہے جس طرح دنیا نے نکالا ہوا ہے یا پھر روز ایک اجلاس بلا کر اور ہوائی بیانات دے کر نکالنا چاہتا ہے اور جب وزیراعظم سے پوچھا جائے گا تو وہ کہیں گے ’شکر کریں آپ کا حال روانڈا جیسا نہیں ہے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ