بلوچستان میں نیا آر ٹی آئی قانون اور خبر بناتے صحافی

ایڈیٹرز ہوں یا رپورٹرز پرنٹ میڈیا سے تعلق ہو یا سوشل میڈیا سے سچ کی تلاس میں صحافی کی جان کا تحفظ ایک اہم مسئلہ رہا ہے۔

کوئٹہ میں آذادی صحافت کے لیے احتجاج کا ایک منظر (اے ایف پی)

’منظور، منظور اور منظور ہے‘ کی گونج میں صوبائی حکومت کی جانب سے اسمبلی میں پیش کیا گیا بل صوبے میں ’معلومات تک کی رسائی‘زور و شور سے منظور کروا لیا گیا۔

حکومت اس بل کو لے کر اس قدر پراعتماد تھی کہ صوبائی مشیر اور ترجمان بشریٰ رند نے اپوزیشن کے اس اعتراض کو کہ انہیں بل پڑھنے نہیں دیا گیا رد کرتے ہوئے بولیں کہ ’اسے پڑھنے کی کیا ضرورت ہے۔‘ اس طرح ’بلوچستان رائٹ ٹو انفارمیشن‘ کا بل پیش ہوتے ہی منظور کر لیا گیا۔

اس بل کا مقصد شہریوں کو ہر اس ادارے سے جو حکومت بلوچستان کی زیر نگرانی چلتا ہے ان سے متعلق معلومات فراہم کرنے کا مجاز بنانا ہے۔ اس سے ویسے تو ہر کوئی فائدہ اٹھا سکتا ہے لیکن صحافیوں کے لیے یہ خصوصی طور پر اہم اور مفید قانون ہے۔

پاکستان جہاں آزادی صحافت کی تاریخ انتہائی ناتواں رہی ہے اور لوگوں کو آزادی اظہار رائے سے متعلق رکاوٹوں اور بندش کا مسلسل سامنا کرنا پڑا ہے۔ نہ حکومتی ادارے باوثوق معلومات شیئر کرتے ہیں اور نہ ٹھوس صحافت ہوسکتی ہے۔

ایڈیٹرز ہوں یا رپورٹرز پرنٹ میڈیا سے تعلق ہو یا سوشل میڈیا سے سچ کی تلاس میں صحافی کی جان کا تحفظ ایک اہم مسئلہ رہا ہے۔ کراچی آرٹس کونسل کے باہر موجود ایک مجمے سے سینیئر صحافی اور مصنف محمد حنیف نے جہاں یہ الفاظ ادا کیے ’بلوچستان کی خبر کو خبر ہی نہیں سمجھا جاتا ہے۔‘

بلوچستان سے تعلق رکھنے والی پہلی خاتون جرنلسٹ نرگس بلوچ کو بھی کچھ اسی طرح کی صورت حال کا سامنا کرنا پڑا جب 2013 میں انہوں نے بلوچستان کے مسائل سے متعلق اپنی دوسری کتاب لکھی۔

ایچ آر سی پی (انسانی حقوق کمیشن پاکستان) کے مطابق اگرچہ بلوچستان میں صحافیوں کی تعداد کم ہے لیکن اس کے باوجود یہاں اکثریت نے مسلح تنظیموں، ریاستی اداروں، قبائلی سرداروں اور مافیاز کی جانب سے دھمکیوں اور خطرناک نتائج کا سامنا کیا۔ یہی وہ اہم وجہ ہے کہ جس کے سبب بیشتر صحافی نقل مکانی یا اپنا صحافتی سفر منقطع کرنے پر مجبور ہوئے۔

جغرافیائی اعتبار سے بلوچستان کو بہت اہمیت حاصل ہے لہٰذا اس صوبے سے جڑی خبروں کو بھی اتنی اہی اہمیت حاصل ہونی چاہیے۔ مشرف دور جسے الیکٹرانک میڈیا کی ترقی کا دور کہا جاتا ہے بلوچستان کے حوالے سے ایک بدترین دور رہا۔ یہ وہ دور تھا جب بلوچستان سے آنی والی خبروں کو ’کنٹرولڈ‘ خبریں کہا جاتا تھا۔

18فروری 2020 کو ساجد نور پر جو ایک اردو اخبار روزنامہ انتخاب کے پسنی (مکران) کے بیورو چیف اور پسنی پریس کلب کے صدر بھی ہیں کیمرہ مین کے ساتھ چاقو کے وار کیے جاتے ہیں۔ ساجد کے مطابق وہ پی ایف ایچ اے سے منسلک ایک سٹوری پر کام کر رہے تھے۔ ان کے مطابق 2009 میں ان کے مکان پر حملہ بھی ہوچکا ہے وہ سمجھتے ہیں کہ کچھ معاملات ایسے ہیں جنہیں رپورٹ کرتے ہوئے ہمیشہ ایک انجانا سا خوف طاری رہتا ہے۔

بلوچستان میں حکومت کے ہزار دعوﺅں کے باوجود کئی مقامات آج بھی صحافیوں کے لیے نوگو ایریاز ہیں۔ ایک طرف مزاحمت کاروں کا دباﺅ اور دوسری طرف سکیورٹی اداروں کی ہدایات مقامی صحافیوں کے لیے شدید مالی اور ذہنی مسائل پیدا کر رہی ہے۔

لسبیلہ سے تعلق رکھنے والے ایک صحافی نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ وہاں قائم ایک پرائیویٹ کمپنی کے خلاف عوامی شکایات موصول ہونے کے بعد وہ رپورٹنگ کرنے وہاں پہنچے تو رپوٹنگ کے دوران مجمعے کے سامنے انہیں اغوا کر کے کئی گھنٹے تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ ان کے ادارے کے مالکان کی ذاتی کوششوں کے بعد ان کی رہائی عمل میں آئی۔ مقامی صحافی کے مطابق آج بھی وہ جب ’نیلی گاڑی‘ دیکھتے ہیں تو ان کے سامنے وہ تمام مناظر تازہ ہو جاتے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

شہزادہ ذوالفقار کا شمار پاکستان کے سینیئر صحافیوں میں ہوتا ہے۔ وہ نہ صرف PFUJ کے صدر ہیں اس کے ساتھ ہی ساتھ کوئٹہ پریس کلب کے صدر بھی رہ چکے ہیں۔ شہزادہ ذوالفقار کے مطابق 2008 سے لے کر اب تک صرف بلوچستان سے 42 سے زائد صحافی اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ شہزادہ ذوالفقار کے مطابق عمومی طور پر اگر آپ مقامی صحافی ہیں اور اپنے علاقے سے متعلق مسائل اجاگر کرتے ہیں تو آپ ’ناپسندیدہ‘ بن جاتے ہیں اور صحافتی اداروں سے انتقام لینے میں سب سے آسان عمل اداروں کے اشتہارات پر پابندی ہے۔ یہ مقامی اخبارات کو سبق سیکھانے کا ایک عام طریقہ ہے۔ بلوچستان میں فیئر رپورٹنگ کے لیے ان پر بےجا پابندیوں کا خاتمہ ضروری ہے۔

نومبر2015 صوبہ بلوچستان کے ایک صحافی ظفر اچکزئی کو ان کے گھر سے اغوا کیا جاتا ہے۔ اغوا کی خبر پورے پاکستان میں ایڈیٹرز کے ایک گروپ تک پہنچی اور اغواکاروں نے خوفزدہ ہو کر صحافی کو چندگھنٹوں کے بعد چھوڑ دیا۔

آج کے جدید دور میں معلومات کا بہت بڑا انحصار الیکٹرانک میڈیا پر ہے۔ بلوچستان میں بہت سے ٹی وی چینلز کے بیورو چیف اپنی نوکریاں بدل یا پھر چھوڑ چکے ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ انہیں مناسب سکرین ٹائم نہ دینا ہے۔ اسی طرح رپورٹرز بھی اپنے خود کے بنائے یوٹیوب چینلز کی طرف زیادہ رجحان رکھتے ہیں کیونکہ جس چینل سے وہ وابستہ ہیں وہ انہیں مناسب ایئر ٹائم نہیں دیتا۔

 بلوچستان کو فیصل آباد اور سیالکوٹ سے بھی کم سکرین ٹائم دیا جاتا ہے جس کی وجہ سے وہاں کے اہم مسائل بری طرح نظرانداز ہو جاتے ہیں۔

ڈان ٹی وی جیسے بڑے چینل نے بلوچستان کے دارالخلافہ کوئٹہ میں اپنا بیورو آفس بند کر دیا ہے جس کی یقینا وجہ بلوچستان کا قومی میڈیا کے لیے کوئی خاص پرکشش آمدنی کا ذریعہ نہ ہونا ہے۔ عمومی طور پر بلوچستان کو سکرین ٹائم اس وقت دیا جاتا ہے جب کوئی دہشت گردی کا بڑا واقعہ رونما ہو جائے یا پھر وزیر اعظم صوبے کا دورہ کریں۔

ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت بلوچستان اس شعبے کو کمیونٹی کی سطح پر فروغ دے، فیئر رپورٹنگ کے لیے صحافیوں کی تربیت پر توجہ دے، پیمرا کو اس معاملے پر حقیقی طور پر پابند کرے کہ وہ بلوچستان  سے متعلق خبروں کو مناسب سکرین ٹائم فراہم کرے اور وہ تمام صحافی جو RTIکے نئے قانون سے فائدہ اٹھا کر سچ کے سفر کو جاری رکھنا چاہتے ہیں ان کی مدد کرے ورنہ صوبائی اسمبلی کے اراکین صرف ڈیکس بجاتے رہ جائیں گے اور بلوچستان کے صحافی خود خبر بنتے رہیں گے۔

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ