کیا بھارت واقعی ترقی کر رہا ہے؟

بھارت کے ایک سرکاری ادارے نے معاشی ترقی سے متعلق مودی حکومت کے اعداد و شمار پر شکوک وشبہات ظاہر کیے ہیں۔

اے ایف پی فوٹو

بھارت کے سرکاری ادارے نیشنل سیمپل سروے آفس (این ایس ایس او) نے ملک کی معاشی ترقی کے اعداد و شمار پر شکوک وشبہات ظاہر کیے ہیں۔

این ایس ایس او کے جمع کردہ ڈیٹا سے معلوم ہوا کہ ایشیا کی تیسری بڑی معیشت کی ترقی کے اعداد و شمار کا حساب کرنے میں کئی خامیاں تھیں۔

این ایس ایس او کی یہ رپورٹ وزیراعظم نریندر مودی کے لیے دھچکا ثابت ہوسکتی ہے جو بھارت میں جاری انتخابات دوسری بار جیتنے کے خواہش مند ہیں۔

مودی اکثر ملکی معیشت میں بہتری کا ذمہ دار اپنی پچھلی حکومت کو ٹھہراتے ہیں، لیکن مخالف کانگریس پارٹی کا کہنا ہے کہ مودی حکومت اعداد و شمار گھوما پھرا کر ایسے پیش کرتی تھی  جس سے وہ ماضی کی حکومتوں سے بہتر لگیں۔

این ایس ایس او کی تحقیق میں مزید معلوم ہوا کہ معاشی ترقی کا تخمینہ لگانے کے لیے جن کمپنیوں کا ذکر کیا گیا ان میں سے ایک تہائی یا تو ’بند تھیں یا ان کا اتا پتا معلوم نہیں ہو سکتا تھا‘۔

ممبئی کے اقتصادی ماہر اشوتوش داٹر نے اے ایف پی کو بتایا: ’بھارت کے مجموعی قومی پیداوار کے اعداد و شمار کچھ عرصے سے عالمی نظروں میں ہیں۔  نئی رپورٹ ان کے سچ اور بھروسہ مند ہونے پر سوالیہ نشان اٹھاتی ہے۔‘

یہ رپورٹ پچھلے ہفتے جاری ہوئی تھی مگر بدھ  کو اخبار ’منٹ‘ میں رپورٹ ہونے کے بعد عام ہوئی۔

پچھلے سال مودی کی بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی جانب سے کانگریس کے گذشتہ دور حکومت میں ترقی کے اعداد و شمار کو کم کرنے کے بعد کانگریس لیڈر راہول گاندھی مودی کی حکومت میں بھارت کے مجموعی قومی پیداوار کے اعداد و شمار پر اعتراض اٹھا تے رہے ہیں۔  

بی جے پی کی جانب سے یہ ریوژن مجموعی قومی پیداوار کا حساب لگانے کے ایک نئے طریقے کی بنیاد پر ہوئی جسے پارٹی نے چار سال پہلے اقتدار میں آنے کے بعد متعارف کرایا تھا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ریوژن کے نتیجے میں کانگریس کے 2005 سے 2012 تک کے دور میں بھارت میں ہونے والی ترقی کے اعداد و شمار بی جے پی کے 2014 میں حکومت میں آنے کے بعد کے اعداد و شمار سے کم ہوگئے۔

مودی حکومت نے ریوژن کا دفاع کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ بھارت کو دوسری بڑی معیشتوں میں مجموعی قومی پیداوار کا اندازہ لگانے کے طریقہ کار کے قریب لاتی ہے۔

اس سال یہ دوسری مرتبہ ہے کہ کسی سرکاری ادارے کے اعداد و شمار مودی حکومت کے لیے شرمندگی کا سبب بنے ہوں۔

جنوری میں وزارت شماریات سے لیک ہونے والے ڈیٹا سے پتہ چلا تھا کہ 2017 سے 2018 میں بھارت میں بے روزگاری کی شرح 6.1 فیصد تک پہنچ گئی جو 45 سالوں میں سب سے زیادہ ہے۔   

فروری میں ریلیز ہونے والے اعداد و شمار کے مطابق 19۔2018 کے مالی سال کی تیسری سہ ماہی میں بھارت کی مجموعی قومی پیداوار میں اضافہ 7.1 فیصد سے کم ہو کر 6.6 فیصد ہوگیا۔  

اقتصادی ماہرین کہتے ہیں کہ بھارتی معیشت کو ہر سال کم از کم سات فیصد بڑھنے کی ضرورت ہے تاکہ ہر ماہ لیبر مارکٹ میں شامل ہونے والے تقریباً 10 لاکھ لوگوں کے لیے نوکریاں پیدا ہو سکیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا