شمال مغربی سعودی عرب میں دریافت ہونی والی پتھر کی تعمیرات جنہیں ’مستطیل‘ کہا جاتا ہے ان کے بارے میں ایک نئی تحقیق کے مطابق وہ اس سے کہیں زیادہ قدیم ہیں جتنا کہ پہلے انہیں مانا جاتا رہا ہے۔
تعمیرات پر تحقیق کرنے والی ٹیم کا کہنا ہے کہ یہ مصر کے اہرام سے بھی پہلے کی ہیں۔ سعودی عرب کے وزیر ثقافت شہزادہ بدر بن عبداللہ بن فرحان نے اپنی ایک ٹویٹ میں کہا کہ پتھر کے زمانے کے آخری دور میں ہوئی یہ دیوقامت تعمیرات سات ہزار سال سے زیادہ پرانی ہیں۔
عرب نیوز کے مطابق آثار قدیمہ کی اس دریافت سے انکشاف ہوا ہے کہ یہ مستطیلیں دنیاکی قدیم ترین یادگاروں میں شامل ہیں۔
رائل کمیشن فار العلا (آر سی یو) نے اس دریافت کو 'مستطیل' کا نام دیا ہے۔ اگرچہ ان مستطیلوں کے وجود کے بارے میں سب کو پہلے سے علم ہے تاہم نئی تحقیق کے دوران ان کی پہلے سے دگنی تعداد میں دریافت ہوئی ہے۔ یہ تقریباً ایک ہزار کے قریب ہیں۔
ہر مستطیل کے آخر میں ایک دیوار ہے جو دیگر طویل دیواروں سے جڑی ہوئی ہے۔ اس سے ان دیوقامت مستطیلوں کے صحنوں کے سلسلے وجود میں آ جاتے ہیں جن کی لمبائی20 میٹر سے لے چھ سو میٹر تک ہے۔
ہر مستطیل کے مرکزی داخلی راستے کے باہراس کی بنیاد میں گول یا نیم گول سیل بنائے گئے ہیں۔ تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ ان مستطیلوں نے تقریباً دو لاکھ مربع کلومیٹر کا علاقہ گھیر رکھا ہے۔ یہ مستطیلیں ایک جیسی دکھائی دیتی ہیں جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان کا تعلق ایک ہی زمانے سے ہے۔
اس دریافت پر ہونے والی تحقیق یونیورسٹی آف ویسٹرن آسٹریلیا کے اس پراجیکٹ کا حصہ ہے جو وہ العلا اور خیبر کے صوبوں میں کر رہی ہے۔ یہ منصوبہ آر سی یو کے آثار قدیم پروگرام میں شامل ہے۔
'The mustatils: cult and monumentality in Neolithic north-western Arabia' is out today. This work is part of the University of Western Australia's @UWAresearch work in #AlUla and #Khaybar as part of @RCU_SA archaeological program. Download here: https://t.co/dL1KYq21cs Thread 1/ pic.twitter.com/xvUFkvin2C
— AAKSA (@aaksa_project) April 30, 2021
پرتھ میں یونیورسٹی آف ویسٹرن آسٹریلیا میں ماہر آثار قدیمہ اور تحقیق کی شریک مصنفہ میلیسا کینیڈی نے این بی سی ٹیلی ویژن کو بتایا ہے کہ'ہم انہیں یاد گاری لینڈ سکیپ خیال کرتے ہیں۔ یہ تقریباً دو لاکھ مربع کلو میٹر سے زیادہ بڑے علاقے میں پائی گئی ہیں اور یہ شکل میں بالکل ایک جیسی ہیں۔ اس لیے شاید ان کے حوالے سے عقیدہ یا فہم بھی ایک جیسے ہیں۔'