ہلمند میں امریکی جنگی طیاروں کی طالبان پر بمباری

افغان حکام کا کہنا ہے کہ حالیہ دنوں میں طالبان نے ملک کے درجنوں مقامات پر اپنی کارروائیوں میں تیزی لائی ہے اور ہلمند میں فورسز اور طالبان کے درمیان شدید جھڑپیں بھی جاری ہیں۔

تین مئی 2008 کی اس فائل تصویر میں امریکی فوجی ایک ہیلی کاپٹر میں ہلمند صوبے کے اوپر اڑ رہا ہے۔ گذشتہ کچھ دنوں سے ہلمند میں افغان فورسز اور طالبان کے درمیان جھڑپیں جاری ہیں جس میں امریکی فوج نے بھی طالبان کے ٹھکانوں پر بمباری کی ہے۔  (اے ایف پی)

افغانستان میں حکام کا کہنا ہے کہ ملک کے جنوب میں طالبان کی ایک بڑی کارروائی روکنے کے لیے امریکی جنگی طیاروں نے افغان فورسز کی مدد کی ہے تاہم شدت پسند پھر بھی ایک شمالی ضلع پر قبضہ کرنے میں کامیاب رہے ہیں۔

جنوبی صوبہ ہلمند میں اختتام ہفتہ سے جب امریکی افواج نے افغانستان سے انخلا کا باضابطہ آغاز کیا ہے شدید لڑائی شروع ہوئی۔ امریکیوں کو طالبان کے ساتھ دوحہ معاہدے کے تحت یکم مئی تک انخلا مکمل کرنا تھا لیکن امریکہ نے اس میں 11 ستمبر تک توسیع کر دی تھی۔

ہلمند کے صوبائی دارالحکومت میں ایک مقامی عہدیدار عتیق اللہ نے بتایا کہ طالبان کے ٹھکانے پر شدید امریکی فضائی حملوں نے انہیں لشکر گاہ کی طرف بڑھنے سے روک دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ (امریکی) ’حملہ کافی شدید تھا۔ میں نے کئی سالوں میں اس طرح کی بمباری کبھی نہیں دیکھی۔‘

خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق ہلمند صوبے میں سرکاری فورسز کی جوابی کارروائی میں گذشتہ 24 گھنٹوں میں 106 طالبان ہلاک جبکہ 37 زخمی ہوئے ہیں۔ طالبان نے بھی افغان سکیورٹی فورسز کو جانی نقصان پہنچانے کا دعویٰ کیا ہے۔ فریقین ایک دوسرے کے نقصانات عمومی طور پر بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہیں۔

ہلمند صوبائی کونسل کے سربراہ عطا اللہ افغان نے اے ایف پی کو بتایا کہ طالبان نے پیش قدمی کی ہے لیکن حکومتی فورسز نے ’ان میں سے کچھ علاقوں کو دوبارہ واپس لے لیا ہے۔‘ انہوں نے کہا کہ طالبان نے ہلمند کے تقریباً تمام اضلاع میں چار روز سے اپنے حملے تیز کر دیے ہیں۔

ایک امریکی دفاعی عہدیدار نے سرکاری افغان فورسز کی فضائی مدد کی تصدیق کی ہے۔ اہلکار نے اے ایف پی کو بتایا کہ امریکی فوج ہلمند اور ملک کے دیگر حصوں میں افغان فورسز کی فضائی مدد جاری رکھے ہوئے ہے۔

قندہار

ادھر ’بی بی سی‘ کا ایک رپورٹ میں کہنا ہے کہ جنوبی صوبہ قندھار کے ضلع شاہ ولی کوٹ میں طالبان نے ایک ڈیم پر قبضہ کر لیا ہے۔

دہلہ یا ارغنداب ڈیم امریکہ کی امداد پر قندھار سے پانچ کلومیٹر دور ضلع شاہ ولی کوٹ میں پانچ سال پہلے تعمیر کیا گیا تھا۔

طالبان پچھلے چند ماہ سے سے ڈیم کا محاصرہ کیے ہوئے تھے اور ڈیم پر کام کرنے والوں کو خبردار کیا تھا کہ وہ اس علاقے میں داخل نہ ہوں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

رپورٹ کے مطابق ’گذشتہ روز کی لڑائی کے بعد طالبان نے ڈیم کے تمام حصوں کو اپنے کنٹرول میں لے لیا ہے اور پولیس پیچھے ہٹ گئی ہے۔‘

بغلان

ادھر شمالی صوبے بغلان میں پولیس کے ترجمان نے اے ایف پی کو بتایا ہے کہ باغیوں نے برکا ضلع پر قبضہ کر لیا ہے۔ ترجمان جاوید بشارت نے بتایا کہ سرکاری فورسز ’حکمت علمی‘ کے تحت پسپا ہوئی ہیں لیکن جلد اس ضلعے پر دوبارہ قبضے کے لیے کارروائی شروع کریں گی۔

تازہ لڑائی کے بعد ہزاروں افغان گھر بار چھوڑ کر لشکر گاہ میں پناہ لینے پر مجبور ہوئے ہیں۔ ان میں سے ایک گلاب شاہ نے بتایا کہ ’طالبان نے مکان کے دروازے پر دستک دی اور ہمیں علاقہ چھوڑنے کا کہا۔ انہوں نے ہمیں افطار کرنے کی بھی اجازت نہیں دی۔ اس جنگ نے ہمیں خانہ بدوش بنا دیا ہے۔‘

حاجی شیرین کا کہنا تھا کہ افغان فورسز اور طالبان گلیوں میں لڑ رہے ہیں۔ ’ہمیں تمام رات تہہ خانے میں گزارنی پڑی۔ دن ہوا تو میں اپنے خاندان کو لشکر گاہ شہر لے آیا۔ ہم اپنے کپڑے بھی ساتھ نہیں لا سکے۔‘

طبیبان بے سرحد (ڈاکٹرز ود آؤٹ بارڈرز یا ایم ایس ایف) نے اپنی ایک نرس کے حوالے سے ٹویٹ کی جس میں انہوں نے کہا کہ ’بہت زیادہ فائرنگ تھی اور گولیاں ہمارے گھر میں بھی گریں۔ لوگ خوفزدہ تھے اور لوگ بغیر جوتوں اور حجاب بھاگ رہے تھے۔‘

تنظیم کا کہنا ہے کہ اس نے 50 سے زائد زخمی افراد کا لشکر گاہ کے ہسپتال میں علاج کیا ہے۔ اس کا منگل کو کہنا تھا کہ اس کے ہسپتال میں اب تک 106 ’جنگ میں زخمی‘ آئے ہیں۔

اے ایف پی کے ایک فوٹوگرافر نے بدھ کو لوگوں کو ٹرکوں میں اپنے سامان کے ساتھ لشکر گاہ پہنچتے دیکھا ہے۔ ان کو روک کر تلاشی لی گئی اور بےدخل افراد کے لیے قائم خیموں میں بھیج دیا گیا۔

گذشتہ سال انخلا کے معاہدے کی شرائط کے تحت طالبان نے امریکی فوجیوں پر حملے بند کرنے پر اتفاق کیا تھا لیکن انہوں نے افغان فورسز کے خلاف حملے جاری رکھے ہوئے ہیں۔

ایسے میں امریکی فوجیوں پر حملے شروع ہونے کا بھی خدشہ ہے تاہم امریکی کمانڈر جنرل سکاٹ ملر نے گدشتہ دنوں کہا کہ وہ نہ صرف اپنے فوجیوں کے تحفظ بلکہ افغان فورسز کی مدد کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

بلخ

ادھر افعان وزارت دفاع نے کہا ہے کہ اس نے بدھ کو صوبہ بلخ میں قائم کیمپ مائیک سپین کا کنٹرول جرمن فورسز سے لے لیا ہے۔ اس سے چند روز قبل ہلمند میں امریکیوں نے کیمپ اینتونک کا کنٹرول بھی افغان حکام کے حوالے کر دیا تھا۔

تازہ صورت حال امریکی انخلا کے اعلان اور دوحہ میں طالبان اور افغان حکومت کے درمیان مذاکرات میں تعطل کے بعد پیدا ہوئی ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا